Header Ads

ad

Islamic Articles

Seo Services

چرواہے کا تقوی

"چرواہے کا تقویٰ"​
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی الله عنهما کے غلام نافع کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ عبداللہ بن عمر رضی الله عنهما مدینہ منورہ کے کسی کنارے کی طرف نکلے ۔ آپ کے ہمراہ آپ کے چند ساتھی بھی تھے ۔ ساتھیوں نے آپ کے کھانے کے لیے دسترخوان بچھایا ۔ اسی دوران وہاں سے ایک چرواہے کا گزر ہوا ۔
سیدنا ابن عمر رضی الله عنه نے اس سے کہا: ”چرواہے آؤ آؤ ! اس دسترخوان سے تم بھی کچھ کھا پی لو “
چرواہا بولا:”میں روزے سے ہوں“
عبداللہ بن عمر رضی الله عنهما نے کہا: ”اس طرح کے سخت گرم دن میں تم روزے کی مشقت برداشت کررہے ہو جبکہ لُو نہایت تیز ہے اور تم ان پہاڑوں میں بکریاں بھی چرا رہے ہو ۔“
چرواہے نے جواب دیا : جی ہاں! میں ان خالی ایام کی تیاری کررہا ہوں جن میں عمل کرنے کا موقع نہیں ملے گا، اسی لیے دنیوی زندگی میں عمل بجالا رہا ہوں ۔
عبداللہ بن عمر رضی الله عنهما نے چرواہے کے تقوی اور خوف الٰہی کا امتحان لینے کے ارادے سے اس سے کہا : کیا تم اس ریوڑ میں سے ایک بکری بیچ سکتے ہو، ہم تمہیں اس کی نقد قیمت دیں گے، مزید تمہارے افطار کے لیے گوشت بھی دیں گے؟
چرواہے نے جواب دیا :
”یہ بکریاں کوئی میری نہیں ہیں جو بیچ دوں بلکہ میرے آقا کی ہیں ، اس لیے میں تصرف نہیں کرسکتا “۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضي الله عنهما نے کہا: تمہارا آقا اگر کوئی بکری کم پائے گا اور تم اس سے کہہ دوگے وہ بکری گم ہوگئی ہے تو وہ کچھ نہیں کہے گا ، کیوں کہ ریوڑ سے ایک دو بکریاں پہاڑوں میں گم ہوتی ہی رہتی ہیں ۔
یہ سننا تھا کہ چرواہا سیدنا عبداللہ بن عمر رضی الله عنه کے پاس سے چل دیا ، وہ اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھا کر یہ جملہ کہتے جا رہا تھا
”پھر اللہ کہاں ہے۔ اللہ کہاں ہے؟ “​
جب چرواہا چلا گیا تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی الله عنهما اس کا یہ جملہ بار بار دہرانے لگے : ’’ پھر اللہ کہاں ہے؟ اللہ کہاں ہے؟“
جب سیدنا عبداللہ بن عمر رضی الله عنهما مدینہ آئے تو چرواہے کے آقا کے پاس انہوں نے اپنے آدمی بھیجے اور اس سے بکریاں اور اس چرواہے کو خرید کر اسے آزاد کردیا اور وہ بکریاں اسے ہبہ کردیں۔
چرواہے کا تقوی چرواہے کا تقوی Reviewed by Unknown on 6:32 AM Rating: 5

No comments:

Ad Home

ads 728x90 B
Powered by Blogger.