Header Ads

ad

Islamic Articles

Seo Services

اسوہ حسنہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم

ڈاکٹر(مفتی) محمد شمیم اختر قاسمی*

نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کی زندگی کے آخری ۲۳/سال جس میں آپ صلى الله عليه وسلم نے کار نبوت انجام دیا،اس میں بھی بالخصوص مکی زندگی بڑی صبر آزما اور تکلیفوں سے بھری ہوئی ہے۔اس عرصے میں ایک پر ایک مشکلیں اور پریشانیاں سامنے آئیں،جن کا آپ صلى الله عليه وسلم نے خندہ پیشانی اور حکمت سے مقابلہ کیا۔چوں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ صلى الله عليه وسلم کو اپنا آخری نبی منتخب کیا تھا اورپوری دنیا کے لیے اسوہ ونمونہ بنایا تھا۔اس لیے آزمائشیں بھی آپ صلى الله عليه وسلم کی زندگی کا جز بن گئی تھیں۔کار نبوت انجام دیتے ہوئے جتنے کٹھن مراحل سے آپ صلى الله عليه وسلم کو گزرنا پڑا ،اتنا انبیائے سابقین میں سے کسی کے بھی حصہ میں نہ آیا۔اس لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ صلى الله عليه وسلم کے مقام ومرتبہ کو تما م انبیا سے بلند کردیا: ورفعنا لک ذکرک اور اسی وجہ سے آپ صلى الله عليه وسلم کو” رحمة للعالمین“ کے خطاب سے بھی نوازا۔
نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے اپنی وفات سے ۲۲/سال قبل کار نبوت کا آغاز ’کوہ صفا‘ سے کیاتھا۔ آپ صلى الله عليه وسلم کی خدا لگی باتیں اہل مکہ کے کانوں تک پہنچیں تو وہ آپ کے مخالف اور جان کے دشمن بن گیے۔پھر بھی آپ نے اپنے فرائض کو انجام دینے میں کسی طرح کی کوئی کمی نہ کی۔مخالفت کی انتہا ہوگئی تو باد ل نخواستہ آپ کواپنے اصحاب کے ساتھ مدینہ ہجرت کرناپڑا۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ جس کام کا آغاز آپ نے مکہ کے کوہ صفا سے کیاتھا اور شدید مجبوری کی بنا پر اللہ کے حکم سے نقل مکانی کیاتھا، اس کی تکمیل بھی وہیںآ کر ہوئی اور ٹھیک اسی مقام پر ہوئی ،جسے میدان عرفات کہا جاتا ہے۔یہیں آپ صلى الله عليه وسلم نے اپنا تاریخ ساز خطبہ دیا ،جسے ”حجة الوداع “ کہا جاتا ہے۔اس خطبہ کے بعد قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیت نازل ہوئی جس میں تکمیل دین کی صراحت کی گئی ہے:
”الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الإِسْلاَم دیناً(المائدہ:۳)
(آج ہم نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کردیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی اور تمہارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے۔)
۲۳/سال کی مدت میں قرآن کریم نازل ہوا۔اس میں ان تمام احکام کو بیان کردیا جن سے انسانیت ہدایت و رہنمائی حاصل کرسکتی اور نشان راہ متعین کرسکتی ہے۔اس میں ان چیزوں کی بھی نشان دہی کردی گئی ہے جن سے دنیا میں عروج وزوال اور انقلاب برپا ہوگا ۔ گویا کہ یہ پورا عرصہ احکام خداوندی کے نزول کا تفصیلی زمانہ ہے۔اس میں اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کا عمل یہ رہا کہ جو کچھ خدا کی طرف سے نازل ہوتا پہلے خود اس پر عمل کرتے پھر اسے اس کے بندوں تک جوں کا توں پہنچادیتے۔
احکام خداوندی کا نزول حسب ضرورت گاہے گاہے ہوتا رہا ہے۔فتح مکہ کے بعد قریب قریب کار نبوت کی تکمیل بھی ہوگئی تھی۔اس کے بعد۱۰ھ میں آپ صلى الله عليه وسلم صحابہ کرام کی ایک بڑی جماعت کے ساتھ حج ادا کیااور آپ صلى الله عليه وسلم نے انسانی حقوق کے تحفظ کا عالمی وابدی خطبہ دیا جس میں پوری ۲۳/سالہ تعلیمات الٰہی کا خلاصہ آگیا ہے۔آپ صلى الله عليه وسلم نے جس عہد ،ماحول اور حالات میں خطبہ دیا وہ آج کے عہد سے بالکل مختلف تھا۔امتداد زمانہ کے ساتھ اس کی اہمیت وافادیت میں اضافہ ہی ہوتا جاتا ہے اور معنویت بڑھتی جارہی ہے۔اس وقت دنیا کی جو حالت تھی اس کا اندازہ مندرجہ ذیل اقتباس سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے:
”آج سے ۱۴/سوبرس پہلے جب کہ پیغمبر انسانیت نے اپنا خطبہ انقلاب ارشاد فرمایا تھا،اس وقت کی آباد دنیا بہرحال آج کل کی طرح وسیع نہ تھی۔امریکہ کے دونوں براعظم ہنوز گوشہٴ گمنامی میں تھے۔ آسٹریلیا دریافت نہ ہواتھا،افریقہ کے بڑے حصے پر آفتاب تمدن کی روشنی نہ پہنچ سکی تھی،ایشیا و یورپ کے انتہائی شمالی علاقے اجاڑ اور غیر آباد تھے۔ہاں البتہ عرب ،چین،ہندوستان، ایران،عراق، شام، مصر،مغرب اقصیٰ ،حبشہ،یونان، اطالیہ، فرانس، اسپین،جنوبی روس، بحیرہٴ بالٹک کا مشرقی اورجنوبی حصہ جٹ لینڈ، اسکینڈے نیویااور برطانیہ وغیرہ میں اگرچہ تہذیب وتمدن کی روشنی موجود تھی،مگر کہیں تیز کہیں مدھم۔یعنی یہ ظاہر ہے کہ ہرجگہ نہ تہذیبی ترقی یکساں ہوئی تھی نہ سیاست،مذہب،اور اخلاق ومعاشرت کا حال ایک جیسا تھا۔“۱
اختلاف روایت کے باوجود ایک لاکھ سے زائد افراد نے اس خطبے کو سنا۔اس اجتماع میں نہ صرف انتہائی اجڑ قسم کے دیہاتی وبدوی موجود تھے ۔بلکہ وہ لوگ بھی تھے جو عرب کے انتہائی اعلیٰ واشرف شمار کیے جاتے تھے اور جو خود اپنے قبیلے یاخاندان کے سربراہ وسردار تھے۔اس میں وہ لوگ بھی تھے جو علم وتقویٰ میں بڑی بلندی پر فائز تھے اور در ِرسول کے ساختہ ،پرداختہ اور تربیت یافتہ تھے۔اختتام خطبہ پر پورے مجمع نے بیک آواز وزبان کہا بے شک آپ صلى الله عليه وسلم نے اللہ کے احکام کو ہم تک پہنچادیا اور اسے ہم دوسروں تک پہنچائیں گے۔ اس اقرار کا عملی نمونہ بھی آپ کے اصحاب نے آپ کی زندگی میں اور آپ کے دنیا سے رحلت کرجانے بعد پیش کیا،جس کی وجہ سے اسلام مختصر مدت میں دنیا کے انتہائی دوردراز خطوں میں پہنچ گیا،جس کی ایک جھلک مندرجہ ذیل اقتباس میں دیکھی جاسکتی ہے۔قاضی اطہر مبارک پوری لکھتے ہیں:
”دوسری صدی ہجری کے آخر ہی میں اسلام مغرب میں اندلس تک اور مشرق میں ہندوستان اور سندھ تک پہنچ چکا تھا۔ ایشیا، افریقہ اور یورپ تینوں برّ اعظموں پر اس کا سایہ پڑ رہا تھا اور ان کے شہروں سے لے کر میدانوں تک میں یقین وعمل کی بیداری پیدا ہورہی تھی، مجاہدینِ اسلام اپنے جھنڈوں کے سایہ میں آگے بڑھ رہے تھے، ان کے پیچھے علمائے اسلام کتاب وسنت اور اپنی علوم کی بساط بچھاتے جاتے تھے اور عوام اسلام کے زیر سایہ امن وامان کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ ہر طرف اسلامی قدریں ابھر رہی تھیں، شہروں اور آبادیوں میں اسلامی تہذیب وثقافت کا چرچا ہورہا تھا۔ عباد و زہاد کا مشغلہ زہد و تقویٰ،علماء ومحدثین کا حلقہٴ درس،امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا زور، کفرو شرک کے اندھیروں میں توحید ورسالت کی روشنی اور مشرق سے لے کر مغرب تک ایک نئی قوم کا وجود، یہ تمام باتیں پوری دنیا کو اقبال مندی کا مژدہ سنا رہی تھیں اور اس نئے دور میں مسلمانوں کی دینی، علمی، فکری، ایمانی اور اسلامی قدریں پورے التزام ونشاط کے ساتھ ابھر رہی تھیں ،مغرب اقصی اور اندلس سے لے کر خطا اور سندھ تک امت واحدہ کی تشکیل ہورہی تھی ،سندھ سے گزر کے ہندوستان کے بہت سے علاقے پہلی صدی ہجری کے آخر تک اسلام کے زیر نگیں آچکے تھے۔بنی امیہ کے حکام وعمال اور ان کے بعد بنو عباسیہ کے حکمراں سندھ پر قابض ودخیل تھے اور یہ علاقہ اسلامی خلافت کے ماتحت عالم اسلام کا ایک قانونی حصہ قرار پاچکا تھا۔“ ۲
اس ابدی منشور (خطبہ حجة الوداع) کے نافذ ہوتے ہی قوموں وملکوں کی حالت بدل گئی۔تہذیب وتمدن نے نئے جلوے دیکھے اور ذہن وفکر کو نئی روشنی ملی۔لیکن تاریخ اسلامی کے طویل عرصہ کے بعد حالات نے رخ بدلا،لوگوں کے اندردولت کی بے جا محبت اور خود غرضی آئی اور باطل حکومتوں کا وجود عمل میں آیا تو اس الٰہی ونبوی منشور جس میں نہ صرف حقوق انسانی کا احترام ملحوظ ہے بلکہ سیاست ومعاملات اور عبادات کے معیار کوبھی متعین وواضح کیا گیا ہے کی خلاف ورزی کی گئی اور طرح طرح کے اعتراضات کیے گیے۔ عوام کی توجہ اپنی طرف مرکوز کرنے کے لیے مختلف ملکوں نے اپنے اپنے مفاد کے تحت متعدد منشور تیار کیے اور اس میں حقوق انسانی کا جس انداز میں استحصال کیا ہے وہ سب پر عیاں ہیں،بلکہ ان نکات میں جومثبت باتیں شامل ہیں ان پر بھی عمل کم ہی کیا جاتا ہے۔آخر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ۱۰/دسمبر ۱۹۴۸/میں حقوق انسانی کا چارٹر تیار کیا جسے دنیا کا بہترین عالمی منشور قرار دیا وہ بھی عیوب ونقائص اور خود غرضیوں سے خالی نہیں ہے،چہ جائے کہ اس کے قبول کرنے اور نہ کرنے کے سلسلہ میں بظاہر اس کی رائے مختلف ہے۔اس منشور کے متعلق ایک دانش ور نے جوتبصرہ کیا ہے، وہ قابل ملاحظہ ہے:
”اس نقطہ کی اہمیت ومعنویت ان لوگوں کے ذہنوں میں زیادہ اجاگر ہوسکے گی جو یہ جانتے ہیں کہ عصر حاضر کی وہ دستاویز جو حقوق انسانی کی نقیب سمجھی جاتی ہے اور جسے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ۱۰/دسمبر ۱۹۴۸/کو منظور کیا تھا ،تجویز وسفارش سے زیادہ اہمیت نہیں تھی اور کسی مملکت کے لیے (Universal Declaration of Human Rights) کا تسلیم کرنا لازمی ولابدی نہیں ہے۔ایک مصنف کے بقول:یہ منشور تحفظ حقوق انسانی کے معاملے میں بالکل ناکارہ اور ناقابل اعتماد دستاویز ہے اس منشور کی حیثیت سراسر اخلاقی ہے۔ قانونی نقطئہ نظر سے اس کا کوئی وزن ومقام نہیں ہے۔اس منشور کی رو سے جو معاشی اور سماجی حقوق منظو کیے گیے ہیں وہ ایک بالغ نظر مبصرکے مطابق، اس کے تسلیم شدہ مفہوم کی رو سے حقوق ہی نہیں ہیں۔ یہ تو سماجی اور معاشی پالیسیوں کے محض اصول ہیں۔بلکہ کمیشن برائے انسانی حقوق میں ۱۹۴۷/ کو طے کیے جانے والے اصول کی روشنی میں گویا منشور کے اعلان سے ایک سال قبل ہی یہ طے ہوگیا کہ اس کی کوئی قانونی حیثیت نہ ہوگی،کوئی ملک چاہے تو اس منشور پر از خود رضا کارانہ طورپر عمل درآمد کرسکتا ہے اور چاہے تو ردی کی ٹوکری میں پھینک سکتا ہے۔“۳
قرآن کریم کی تعلیمات اور حضور صلى الله عليه وسلم کے اقوال وافعال اس بات پرعادل وشاہد ہیں کہ اسلام میں جبرو اکراہ کی گنجائش نہیں ۔دین کے معاملے میں ہر کوئی آزاد ہے۔ اس میں جو کچھ بھی بیان ہواہے وہ پوری انسانیت کے لیے ہدایت ورحمت ہے۔اس طغیانی دور میں بھی جو کوئی اس پر عمل کرے گا بلکہ عمل کرنے کی شدید ضرورت ہے تو عزت وبلندی کا مقام حاصل کرے گااور کبھی بھی کسی کے سامنے اور کہیں بھی ذلیل ورسوا نہ ہوگا۔آپ صلى الله عليه وسلم نے اپنے اول اور آخری حج میں جو خطبہ دیا وہ احکام الٰہی کا خلاصہ اور نچوڑ ہے ،جو پوری انسانیت کی فطرت اور ضرورت کے عین مطابق ہے۔
یوں تو پورا قرآن ہی انسانیت کے لیے ہدایت ورحمت اور شفاہے،جسے اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم لوگوں تک پہنچاتے اور احکام الٰہی سے متعارف کراتے رہے۔اس میں نہ صرف انسانیت کے مقصد تخلیق کو واضح کیا گیا ہے بلکہ اس کے ساتھ نماز،روزہ،زکوٰة،حج کی ادائیگی کے مطالبہ کے ساتھ توحید کے اقرار کو لازم قراردیا گیا ہے،جس کے بغیر کوئی مومن ہی نہیں ہوسکتا۔اس میں سماجی ومعاشرتی احکام بھی ملتے ہیں تو روزوشب گزارنے کا پیمانہ بھی متعین کیا گیا ہے۔جائز وناجائز اور حلال وحرام کی تمیز کرائی گئی ہے تومعاملات کو بھی اس میں متعین کیا گیا ہے۔اگر جنگ وجدال کا حکم ناگزیر صورت میں دیا گیا ہے تو اس کے ساتھ مومن کی اچھی صفت یہ بیان کردی گئی ہے کہ وہ معاف کرنے والاہو۔شوہر اوربیوی کے حقوق وتعلقات کو ظاہر کیا گیا ہے تو ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاوٴ کرنے کو حصول درجات کا ذریعہ بتایا گیاہے۔اگر اولاد کو اور مال کو فتنہ کہاہے تو اسے عزیز نعمت قرار دینے میں قرآن پیچھے نہیں ہے۔وقت اور حالت کے تحت دونوں کے مقا م ومرتبہ کا لحاظ کیا گیا ہے۔ اعزاء و اقارب اور پڑوسیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کی تعلیم ملتی ہے تواس میں اللہ کی دوسری مخلوق پر بھی رحم وکرم کرنے پر زور دیا گیا ہے۔اگر اس میں تعلیم وتعلم کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے تو تقویٰ کو شعار بنانے پر بھی زور دیا گیا ہے۔اگر اس کا تعلق ایام سابقہ سے ہے تو عہد حاضر کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا ہے اور آئندہ رونما ہونے والے واقعات کی بھی اس میں نشان دہی کی گئی ہے۔گویا کہ پورا قرآن سراپا ہدایت اور معلومات کا ایسا خزانہ ہے جس کے مثل کوئی کتاب ہوہی نہیں سکتی۔اسی قرآنی ہدایت کی تعلیمات کو اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے اپنے خطبہ میں اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے۔جس کی طرف توجہ مرکوز کرنے کی شدید ضرورت ہے۔
فتح مکہ کے ساتھ اسلام پورے خطہ عرب میں قریب قریب پہنچ گیا تھا۔اسے یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کے اس کام کی تکمیل ہوگئی تھی جس کے لیے اللہ نے آپ کو آخری نبی بناکر بھیجا تھا۔کیوں کہ یہیں اسلام کا وہ عظیم مرکز تھا جہاں لوگ پہنچ کر ادائیگیٴ حج کرتے تھے۔ اہل اسلام کو مدینہ پہنچنے کے بعد مکہ آنے کا موقع نہ ملا کہ ادائیگیٴ حج کی سعادت حاصل کریں،اس لیے وہ بے چین ومضطرب رہتے تھے۔صلح حدیبیہ کا واقعہ اسی پس منظر میں رونما ہوا تھا۔پھر کفار مکہ کی طرف سے اس صلح کی خلاف ورزی ہوتے ہی آپ صلى الله عليه وسلم نے مکہ پر چڑھائی کردی اور اسے فتح کرلیاجو ۸ھء کا واقعہ ہے۔فتح مکہ کے بعد آپ صلى الله عليه وسلم مدینہ چلے آئے۔اگلے سال مسلمانوں کی بڑی جماعت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی قیادت میں فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے مکہ گئی اور آپ صلى الله عليه وسلم مدینہ ہی میں رہے۔بعض سیرت نگاروں کے مطابق اس وقت تک ارکان حج کی تکمیل نہ ہوئی تھی اور اس کے احکام کا نزول مکمل نہ ہواتھا۔مگر جب اس کا نزول ہوگیا تو آپ صلى الله عليه وسلم حج کرنے کے لیے عازم سفر ہوئے ۔نبوت کے بعد آپ صلى الله عليه وسلمنے اپنا پہلا اور آخری حج اسی سال یعنی ۱۰ھ میں ادا کیا۔ اس کے لیے آپ اپنے اصحاب کے ساتھ ۲۵/ذی قعدہ ۱۰ھء/۲۰/مارچ ۶۳۲ ء کو مدینہ سے روانہ ہوئے ۔جوں جوں آپ آگے بڑھتے جاتے لوگوں کا قافلہ آپ صلى الله عليه وسلم کے ساتھ ہوتا جاتاجو خوشی ومسرت سے سرشار تھے۔بالآخر یہ قافلہ ۴/ذی الحجہ ۱۰ھ /۲۰/مارچ ۶۳۲ء میں اتوار کے دن مکہ پہنچا۔وہیں سب لوگ قیام پذیر ہوئے ۔یہاں تک کہ ۸/ ذی الحجہ کو نبی اکرم صلى الله عليه وسلم منیٰ کے لیے روانہ ہوئے ،وہاں سے ۹/ذی الحجہ کو نکلے تو نمرہ سے گزر کر عرفات پہنچے اور یہاں وقوف فرمایا۔یہیں آپ صلى الله عليه وسلم نے اپنا تاریخ ساز خطبہ دیا ۔ابتدائے حج اور خطبہ دینے کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے اصح السیر کے مصنف لکھتے ہیں:
”مروہ سے اتر کر حضور صلى الله عليه وسلم نے مکہ سے باہر قیام فرمایااور تمام اصحاب یوم الترویہ یعنی ۸/ ذی الحجہ تک آپ صلى الله عليه وسلم کے ساتھ وہیں رہے۔اتوار ،پیر،منگل،بدھ یہ چارروز آپ صلى الله عليه وسلم نے وہاں قیام فرمایا اور اس درمیان میں برابر نماز قصر اداکرتے رہے۔ جمعرات کے روز یعنی ۸/ ذی الحجہ کو صبح کے وقت آفتاب بلند ہونے کے بعد تمام اصحاب کے ساتھ منیٰ کی طرف روانہ ہوئے ۔جو لوگ حلال ہوگئے تھے انہوں نے یہیں سے ۸/ ذی الحجہ کا احرام باندھا۔ احرام کے لیے یہ لوگ مسجد نہ گئے،بلکہ مکہ سے باہر ہی احرام باندھا۔منیٰ میں پہنچ کر آپ صلى الله عليه وسلم نے ظہر اور عصر کی نماز پڑھی اور رات کو وہیں رہے۔یہ جمعہ کی رات تھی۔پھر جمعہ کے روز جب آفتاب طلوع ہوا تو ضب کے راستہ سے عرفہ کی جانب روانہ ہوئے۔راستہ میں بعض اصحاب تلبیہ کہتے تھے،بعض تکبیر۔آپ صلى الله عليه وسلم سنتے تھے مگر کسی کو منع نہ کرتے تھے۔عرفات کے پورب کی جانب اس وقت ایک قریہ تھا،جس کا نام نمرہ تھا،آپ صلى الله عليه وسلم کے حکم سے وہیں آپ صلى الله عليه وسلم کا قبہ نصب ہواتھا،اس میں آپ اترے ۔آفتاب ڈھلنے کے بعد آپ کا ناقہ قصویٰ آیا،اس پر آپ سوار ہوئے اور وہاں سے عرفہ کے بطن وادی میں آئے اور وہاں اونٹ ہی پر وہ خطبہ عظیمہ ارشاد فرمایاجو اسلام کی سب سے بڑی دولت ہے۔“۴
خطبہ حجة الوداع کا تذکرہ ہوتے ہی عام طور سے ذہن میں اس کا وہ حصہ گردش کرنے لگتا ہے،جس میں چند بنیادی باتوں کے ساتھ انسانیت کا احترام اور اس کے حقوق کی حفاظت کا ذکر ملتا ہے۔یہی حصہ بیشتر کتب متون اور سیر میں بھی ملتا ہے۔حالاں کہ یہ خطبہ اس سے بھی زیادہ طویل ہے جس میں اساسیات اسلام،اجتماعات ،دینیات، عبادات اور معاملات کی تعلیم مختصر اور جامع انداز میں دی گئی ہے۔اس موقع پرآپ صلى الله عليه وسلم نے تین خطبے ارشاد فرمائے تھے۔پہلا ۹/ذی الحجہ کوعرفات کے میدان میں،دوسرا۱۰/ذی الحجہ کو منیٰ میں اور تیسرا بھی۱۱/یا۱۲/ذی الحجہ کو منیٰ میں دیا۔لیکن ان تینوں میں عرفات کا خطبہ زیادہ اہم ہے۔تعجب کی بات ہے یہ خطبات یکجا کسی کتاب میں موجود نہیں ہیں۔البتہ اس کے اجزاء مختلف کتابوں میں منتشر ضرور ہیں ۔بعد کے زمانہ میں سیرت رسول پرجو کام ہوا ہے اس میں بھی پورے خطبات نہیں ملتے۔کچھ سالوں قبل پاکستان سے ماہ نامہ نقوش کا خصوصی شمارہ ”رسول نمبر“ کے نام سے شائع ہوا تھاجو ۱۳ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے، اسکی تکمیل کیلئے علمی دنیا کی اہم شخصیات کی مدد لی گئی تھی ،اس میں بھی پورا خطبہ نہیں ملتا۔البتہ مولانا غلام رسول مہر مرحوم نے کافی حد تک اسکی تلافی کرنے کی کوشش کی ہے تاہم وہ بھی نامکمل ہے۔اس کمی کا احساس راقم کوپہلے سے تھا۔کیوں کہ جب میں نے ۱۹۹۹/ میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے جلسہ”سیرت النبی“کے مقابلہ مضمون نویسی بہ عنوان”انسانی حقوق کا تحفظ خطبہ حجة الوداع کی روشنی“میں حصہ لیا ،تو اس کی تیاری میں بہت سی کتابوں کامطالعہ کیا ،مگر کہیں مکمل خطبہ نہیں ملا۔سیرت نبوی پر ابن سعد کی طبقات بڑی اہم مانی جاتی ہے اس میں بھی پورے خطبہ کا ذکر نہیں ہے۔اس وقت سے ہی اس کی تلاش جاری تھی۔چند دنوں قبل ایک کتاب ”حجة الوداع“پر نظر پڑی جو بیت الحکمت لاہور سے ۲۰۰۵/ سے شائع ہوئی ہے، تو بڑی خوشی ہوئی کہ اس کمی کا ازالہ ہوگیا۔کتاب کے مصنف پروفیسر ڈاکٹر نثار احمد صاحب سابق رئیس کلیہ فنون وصدر شعبہ اسلامی تاریخ جامعہ کراچی ہیں۔انہوں نے پورے خطبہ کو مختلف ماخذ کے مدد سے مع حوالہ دفعات کی شکل میں جمع کردیا ہے۔اس سے خطبہ کی افادیت بڑھ جاتی ہے اور علم و تحقیق کی دنیا میں ایک نئی چیز کا اضافہ ہوگیا ہے۔اس کے علاوہ اسی عنوان سے ایک کتابچہ بھی شائع ہوا ہے ، جس کے مرتب مولانا فضل الرحمن اعظمی ہیں جو افریقہ میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں ،اس میں بھی تشنگی موجود ہے، جس سے قاری مطمئن نہیں ہوپاتا۔ پروفیسر مذکو ر کی کتاب سے خطبے کا عربی متن پیش کرنے کے بجائے اس کا اردو ترجمہ یہاں نقل کیا جاتا ہے۔تاکہ اس کی اہمیت کا نہ صرف اندازہ لگایا جاسکے بلکہ اس سے پوری طرح استفادہ کیا جاسکے۔کیوں کہ بقول ایک سیرت نگار:
”ایک عظیم الشان بین الاقوامی دستاویز ہے ،جو نہ صرف اپنے دور میں آگے یا پیچھے کی کوئی مثال نہیں رکھتی،بلکہ آج بھی انسانیت کے پاس ایسا عظیم منشور حقوق موجود نہیں ہے ،جسے دینی تقدس کے ساتھ نافذ کرنے کے لیے ایک عالمی جماعت یا امت کام کرنے کے لیے تیار کی گئی۔اس کے بعض اجزاء جدید دور میں دوسروں کی دستاویزات میں بھی ملتے ہیں۔مگر ان کاغذی پھولوں میں عمل کی خوشبو کبھی پیدا نہ ہوسکی۔پھر حجة الوداع کے اساسی عقائد کے علاوہ بعض اہم اجزاء ایسے ہیں جن کی قدرو قیمت سے ہماری آج کی دنیا آشنا ہی نہیں۔“۵
اس خطبہ نے انسانی دنیا پر جو اثرات ڈالے ہیں اور اس سے قوموں وملکوں کی حالت زار میں جو تبدیلی واقع ہوئی ہے اس کا ذکر کرتے ہوئے اسی سیرت نگار نے یہ بھی تحریر کیا ہے:
”خطبہ حجة الوداع نہایت ہی خوبی سے اس حقیقت کو اجاگر کردیتا ہے کہ اب تک کے دوتین ہزار سالہ دور تاریخ میں حضور پیغمبرآخرالزماں صلى الله عليه وسلم وہ پہلی مبارک شخصیت ہیں جو ساری انسانیت کے لیے وسیع اور جامع پیغام لے کر آئے اور اس پیغام کو ایک تحریک کی شکل میں جاری کیا ،اس پر مبنی ریاست قائم کی اور اسے دنیا کی تمام اقوام تک پہنچانے کے لیے شہدا ء علی الناس کی ایک جماعت قائم کردی۔“ ۶
اسوہ حسنہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اسوہ حسنہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم Reviewed by Unknown on 4:34 AM Rating: 5

No comments:

Ad Home

ads 728x90 B
Powered by Blogger.