Header Ads

ad

Islamic Articles

Seo Services

کفر پر غلبہ اسلام (انشاء اللہ)

قرآن کریم میں کفر کے مغلوب ہونے اور اسلام کے غالب آنے کی بشارتیں باربار دی گئی ہیں مثلا سورہ فتح کے تیسرے رکوع کو پڑھ جائیے، وہاں اصحاب رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم) کو مخاطب کرتے ہوئے بےشمار فتوح اور غنائم کی لگاتار بشارتیں دی گئی ہیں، اور چوتھے رکوع میں اسلام کے دیگر ادیان باطلہ پر کامل غلبے کی بشارت موجود ہے اور اس غلبے کی خبر کی صداقت پر اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ اس سلسلے میں اللہ گواہ ہے اور اس کی گواہی کافی ہے۔ یہاں اسلام کا سیاسی اور عسکری غلبہ بھی یقینا مراد ہے ورنہ محض دلائل کی بنیاد پر حق کبھی مغلوب ہوتا ہی نہیں۔ قبل ازیں گزشتہ قسط میں ملا باقر مجلسی شیعی کا حیات القلوب سے غزوہ خندق کے سلسلے میں ایک اقتباس پیش کیا جا چکا ہے جس سے صاف واضح ہے کہ روم و ایران اور یمن وغیرہ کے علاقے مسلمانوں کے قبضے میں آنے والے تھے اور یہ سب کچھ خلفائے راشدین کے دور میں ہی ہوا۔ اسی لئے غلبے کے لئے قرآنی کلمات 'لیظھرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون' لائے گئے ہیں کیونکہ دلائل کی بنا پر حق و باطل میں امتیاز کرنا اور لوگوں پر اسے کماحقہ واضح کرنا اور دین کو بلا کم و کاست ظاہر کرکے لوگوں تک ٹھیک ٹھیک پہنچا دینا اور اسلام میں نئے داخل ہونے والوں کی صحیح رہنمائی کرنا تبھی ممکن تھا کہ اس دور کی دو جابر اور نہایت طاقتور قوتوں یعنی روم و ایران کی حکومتوں پر کاری ضرب لگائی جاتی جو لوگوں کی شخصی آزادیوں کو سلب کئے ہوئے تھیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور عجمی اقوام بھی اسلام کی نعمت اور برکات سے مالامال ہوئیں۔ اب اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے فورا بعد (معاذاللہ) ظالموں کو غلبہ حاصل ہوگیا تھا اور اہل حق مجبور و مغلوب ہوکر ( معاذاللہ) تقیہ اور کتمان کے پردے میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوگئے تھے اور خود اپنی حیات طیبہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خواہ کسی کے لئے بھی پروانہ خلافت لکھوانا چاہتے تھے اور آخری ایام میں حضرت اسامہ رض کی مہم روانہ فرمانا چاہتے تھے لیکن کچھ لوگوں نے آپ کو ایسا نہ کرنے دیا۔ امہات المومنین حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنھما ( معاذاللہ ثم معاذاللہ) منافقہ تھیں اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (معاذاللہ ثم معاذاللہ) زہر دے کر اس لئے شہید کر ڑالا تھا کہ بعد میں حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنھما یکے بعد دیگرے خلافت و امارت پر قابض ہوجائیں اور سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ جو مبینہ طور پر خلیفہ بلافصل تھے اپنے حق سے محروم اور مغلوب ہوکر رہ جائیں اور بقول روافض اسداللہ الغالب ہونیکے باوجود تقیہ و کتمان کے پردے میں انتہائی لاچاری، عاجزی اور بےبسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوجائیں اور بقول روافض ایسا ہی ہوا ، تو کون عقلمند اسلام کو غالب قرار دے گا؟؟ ثابت ہوا کہ قرآنی بشارات ہی سچی ہیں اور ان کے برعکس تمام خودساختہ مفروضات جھوٹے اور غلط ہیں۔ سبھی خلفائے راشدین حق پر ہیں۔ وہ سب باہم شیروشکر تھے اور انہی کے ذریعہ اسلام دیگر ادیان باطلہ پر غالب آیا۔
 جب ابلیس لعین کسی کو اللہ اور اس کے رسول کے مقابلے اور معارضے میں لے آئے تو دینی امور میں ایسے لوگوں کی عقل ماوءوف ہوجایاکرتی ہے۔ یہاں چند نہایت ہی اہم سوالات پیدا ہوتے ہیں، جن کے جوابات تلاش کرنے چاہئیں۔
۱- ہمارے امامیہ بھائیوں کے گھروں میں موجود خواتین مومنات ہیں یا منافقات؟  اگر مومنات ہیں اور اللہ تعالی کی محبوب ترین ہستی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ( معاذاللہ ثم معاذاللہ) منافقات تھیں تو کیا اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت ترین توہین لازم نہیں آتی؟؟ یہاں حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کی بیویوں کا حوالہ قطعا غیر متعلق ہے ۔ سابقہ بعض شرائع کے برعکس شریعت محمدیہ میں عام مسلمانوں کے لئے بھی مشرکین اور منافقین سےنکاح حرام ہے چہ جائیکہ خاتم النبین ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے گھر میں کوئی منافقہ یا مشرکہ عورت ہو۔ منافق بھی کافر ہوتا ہے جو اپنے کفر کو چھپاتا ہے۔
۲۲- قرآن کریم میں دو مرتبہ تاکیدی حکم ہے کہ " اے نبی ! تو کافروں اور منافقوں کے خلاف جہاد کر اور ان پر سختی بھی کر اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ برا ٹھکانا ہے"( التوبہ۷۳-التحریم ۹) اب اگر اللہ کا رسول منافقوں سے اپنی مرضی اور اپنے اختیار سے رشتے ناطے قائم کرے ، ان کی لڑکیوں کو اپنی بیویاں بنا کر امہات المومنین کے نہایت بلند منصب پر فائز کرے ، اپنی بیٹیاں ( معاذاللہ) منافقین کے حوالے کرے مثلا آپ کی دو بیٹیاں حضرت عثمان رض کے نکاح میں یکے بعد دیگرے آئیں توکیا اسے منافقین پر سختی کہا جائے گا ؟؟
۳۳- اگرکہا جائے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر میں آپ کی نسبی نہیں بلکہ لےپالک بیٹیاں تھیں تو آج کے گئے گزرے دور میں بھی کوئی شخص اپنی نسبی بیٹی کے لئے تو بہترین رشتہ تلاش کرے اور لےپالک بچیوں کو منافقین یا فساق و فجار کے نکاح میں دے دے تو اسے سخت بدبخت ، انتہائی سنگدل اور پرلے درجے کا ظالم سمجھاجائیگا۔ تو کیا رحمتہ للعلمین کی طرف ایسے ظالمانہ فعل کو منسوب کرنے والا خبیث ترین شخص شمار نہیں ہوگا جو آپ کی اس سنگین توہین کی شرمناک جسارت کرے ؟؟
۴۴- اگر آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) کو ان کے مبینہ نفاق کا علم نہیں تھا تو بعد کے ادوار کے نام نہاد مومنین ( روافض) کو کس شیطانی وحی سے اس کا علم ہوا؟؟ اگر آپ کو علم نہیں تھا تو اللہ تعالی (معاذاللہ) کیوں خاموش رہا؟؟ نیز روافض
کے نزدیک تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب بھی ہیں توکیا اللہ اور اس کے رسول نے منافقین پر سختی اسی طرح فرمائی تھی ؟؟
۵-  جب آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے ( روافض کے عقیدے کے مطابق) عالم الغیب اور مختارکل ہونے کے باوجود بیویوں کے ہاتھوں غٹاغٹ زہر پی لیا تو کیا خودکشی آپ کے لئے جائز تھی؟؟ اگر زبردستی پلایا گیا تو آپ مختارکل کیسے ہوئے ؟؟ نیز قرآن میں ہے کتب اللہ لاغلبن انا ورسلی ( المجادلہ ۲۱)۔" یعنی اللہ نے یہ پکا فیصلہ فرمادیا ہے کہ میں اور میرے رسول ( صاحب شریعت نبی) ضرور بالضرور غالب رہیں گے۔" تو یہ کیسا غلبہ ہے کہ آپ نے عالم الغیب اور مختارکل ہوتے ہوئے زہر نوش فرما لیا ؟؟
 یہاں رضا بالقضاء ( تقدیر پر راضی ہونے) کا عذرلنگ قطعا غلط اور غیر متعلق ہے ۔ اگر حضرت عائشہ و حفصہ (رضی اللہ عنھما) معاذاللہ واقعی منافقہ تھیں تو دیدہ و دانستہ کسی منافق کے خبیث قاتلانہ عزائم کو پورا ہونے دینا اور موت کو گلے لگا لینا تو شریعت کی بدترین خلاف ورزی اور خودکشی ہے۔ اس سے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ( معاذاللہ) ظالموں کی دیدہ و دانستہ مجرمانہ اعانت اور خودکشی کا سنگین الزام عائد ہوتا ہے۔ یہ روافض کیسے نام نہاد مومنین ہیں جو نہ تو اپنی ماوں (امہات المومنین ) کی سخت توہین سے اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معاذاللہ تحقیر و تذلیل سے باز آتے ہیں ؟؟ قل بئسما یامرکم به ایمانکم ان کنتم مومنین۔
جو شخص بھی خلاف شریعت کام کرے تو وہ اس کی تقدیر میں لکھاہوتا ہے تبھی تو وہ یہ کام کرتا ہے۔ کوئی چور چوری کرے تو یہ اس کی قسمت میں لکھی ہوتی ہے۔ اب اگر وہ مثلا عدالت میں اپنی صفائی یوں بیان کرے کہ میں نے چوری اس لئے کی ہے کہ یہ میری تقدیر میں لکھی ہوئی تھی اور میں لوگوں پر یہ ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ میں رضا بالقضاء کا قائل ہوں اور تقدیر پر راضی ہونا تو شریعت میں عین مطلوب و مقصود ہے لہذا مجھے باعزت بری کیا جائے۔ اگر کسی چور کا دنیوی عدالت میں اپنی مدافعت میں اس طرح کا مضحکہ خیز بیان اس کے جرم کو مزید موکد و پختہ کرے گا ، تو کوئی خلاف شریعت افعال کو حضرات انبیاء علیھم السلام، صحابہ کرام، ائمہ عظام اور اولیاء و صلحاء کی طرف منسوب کرکے یہ کہےکہ وہ ان خلاف شریعت کاموں سے اپنی رضا بالقضاء کا اظہار فرمایا کرتے تھے اور اپنی اس بہتان تراشی سے وہ رب العالمین کی عدالت میں سرخروئی کی امید لگائے بیٹھا ہو تو اس سے بڑا احمق کون ہوسکتا ہے ؟؟ رضا بالقضاء کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ غیراختیاری مصائب و شدائد پر انسان صبر کرے اور یہ سمجھے کہ میری تقدیر میں یہی تھا اور چونکہ میں اپنی اس تقدیر پر اللہ تعالی سے راضی ہوں اور تکالیف پر صبر کر رہا ہوں ، لہذا وہ مجھے بہترین اجر سے نوازے گا۔ اس کے برعکس رضا بالقضاء کی آڑ میں اللہ کے نیک بندوں کی طرف خلاف شریعت کام منسوب کرنا تو صریح بہتان اور ظلم پر ظلم ہے۔
ے)
کفر پر غلبہ اسلام (انشاء اللہ) کفر پر غلبہ اسلام (انشاء اللہ) Reviewed by Unknown on 5:00 AM Rating: 5

No comments:

Ad Home

ads 728x90 B
Powered by Blogger.