Header Ads

ad

Featured Posts

[Travel][feat1]

Islamic Articles

Seo Services

موت

8:29 AM
موت​

حضرت سلیمان علیہ السلام اپنےوزیر کے ساتھ مجلس میں گفتگو کررہےتھے کہ ایک شخص نہایت خوبصورت حلیے میں،عمدہ پوشاک پہنے،اعلی وضع قطع کے ساتھ مجلس میں داخل ہو۔تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد وہ شخص چلاگیا۔اسکے جانے کےبعد وزیر نے حضرت سلیمان علیہ السلام سے پوچھا؛
"اﷲ کےنبی!یہ ابھی جوشخص آپکے پاس کون تھا؟"
ارشادہوا؛
"میرے پاس جوشخص بیٹھا تھا وہ ملک الموت تھا"۔
جیسے ہی وزیر نے موت کے فرشتہ کا ذکرسنا،اسکا رنگ فق ہوگیا،جسم کپکپانے لگا۔عرض کرنے لگا:
حضرت!میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ ہوا کوحکم دیں وہ مجھے ہندوستان پہنچا دے۔میرے لیےممکن نہیں کہ میں اس جگہ بیٹھوں جہاں ملک الموت بیٹھا ہے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے اسکی درخواست قبول کرلی۔ہوا کوحکم دیا اس نے وزیر کو ہندوستان منتقل کردیا۔
تھوڑی دیرگزری تھی کہ ملک الموت دوبارہ حضرت سلیمان علیہ السالام کی مجلس میں حاضر ہوا وزیرنظرنہیں آیاپوچھا؛
آپ کا وزیرکدھرہے؟
ارشاد فرمایا؛"تیرے ڈراورخوف کی وجہ سے ہوانےاسکو ہندوستان پہنچا دیا"۔
ملک الموت کہنے لگا؛جب ٹھوڑی دیر پہلے آپ کی مجلس میں آیا تھا تواس شخص کو آپ کی مجلس میں دیکھ کر بڑا متعجب ہوا،کیونکہ مجھے حکم ملا اﷲ تعالی کی طرف سے کہ فلاں وقت پر اس شخص کی ہندوستان کے فلاں علاقے میں جان قبض کرنا ہے۔اور یہ ہندوستان سے ہزار میل دور آپ کے پاس بیٹھا ہے۔
"سبحان اﷲ!اﷲتعالی﴿تقدیر میں لکھے ہوئے﴾وقت اور جگہ کو بدلتا نہیں"
بہرحال میں وقت مقرر پر ہندوستان پہنچا تو یہ شخص اس جگہ موجود تھا،اور اب میں اسکی جان قبض کرکے آپ کے پاس آرہاہوں۔
موت موت Reviewed by Unknown on 8:29 AM Rating: 5

مکھی کو غیر اللہ پر قربان کرنے سے ایک شخص جہنم میں چلا گیا

8:26 AM
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا؛ایک شخص مکھی کی وجہ سے جہنم میں چلا گیا اور ایک جنت میں چلاگیا،لوگ بڑے حیران ہوئے کہ مکھی کی وجہ سے بھی کوئی جنت اور جہنم کی راہ پاسکتاہے۔عرض کرنےلگے
اے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم،،،،،،؟؟؟
پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا؛دو شخص سفر میں جا رہے تھے اور چلتے چلتے وہ ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں ایک بت پرست قوم رہتی تھی۔اور وہ بت پرست قوم تب تک کسی مسافر کوآگے نہیں جانے دیتی تھی۔جب تک وہ ان کے بتوں پر کوئی چڑھاوا نہ چڑھا دیتے،جب یہ دونوں مسافر پہنچے تو ان دونوں کو روک لیاگیا،اس قوم کے لوگوں نے ان سے کہا تم بھی ہمارے بت پر کوئی چڑھاوا چڑھاو،انھوں نے یہ کہا صورتحال دیکھ کر ہمارے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے،ہم خالی ہاتھ ہیں نہ ہمارے ہاتھ کوئی درہم ہیں نہ دینار ہے،اور نہ ہی کچھ کھانے پینے کا سامان ہم اس بت پر کوئی چڑھاوا نہیں چڑھاسکتے،بت پرست قوم نے کہا یہ نہیں ہوسکتا کہ تم اس بت پر بغیر کچھ ديےگزرجاؤ۔اگر تم ایسے مفلس ہو تو ایک ایک مکھی پکڑو اور اس کو ہمارے ہمارے بت کے نام پر مار دو،پہلے مسافر نے کہا یہ کونسی مشکل بات ہے۔فورًا ایک مکھی پکڑی اور اسے بت کے نام پر مار دیا،اور اپنی جان بچالی۔لیکن اس آدمی کو اﷲ نے جہنم میں پھینک دیا کیونکہ وہ مکھی اﷲ کی مخلوق تھی اور غیراﷲ کے لیے مار دی گئی تھی۔اب دوسرے مسافر کی باری آتی ہے،تواس نے کہا میں کبھی بھی ایسا نہیں کرسکتا کہ اﷲ کی مخلوق کو کسی اور کے نام پر ماروں،چاہے میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔اس مسافر کو ان لوگوں نے مار ڈالا،اور اسے جنت مل گئی۔صرف اس بنا پر کہ اس نے جان دینا گوراہ کرلیا،لیکن اﷲ کے علاوہ کسی اور کے نام پر کوئی چڑھاوا نہیں چڑھایا۔
﴿مسند احمد،کتاب الزھد۳۳رقم۷۵﴾​
مکھی کو غیر اللہ پر قربان کرنے سے ایک شخص جہنم میں چلا گیا مکھی کو  غیر اللہ پر قربان کرنے سے ایک شخص جہنم میں چلا گیا Reviewed by Unknown on 8:26 AM Rating: 5

ایک سچا تاریخی اسلامی واقعہ

8:21 AM
حضرت عزیر علیہ السلام کا گدھا
میلوں کا سفر کرنے کے بعد تھکان کے آثار چہرے پر عیاں تھے مسافر اس وقت آرام کا طلبگار ایک بستی میں داخل ہوا،اجڑی ویران بنستی جہاں زندگی کا وجود دور دور تک نظر نہیں آرہاتھا۔ایساظاہر ہوتا تھا کہ برسوں پہلے یہاں پر انسان آباد تھے مگر کسی حادثے یا عذاب کی وجہ سے انسان زندہ نہ رہے تھے۔گرے مکان،بوسیدہ کمرے اور کھلے دروازے یہی منظر پیش کررہےتھے۔ایک سفر کی تھکان دوسرا خالی اجڑی بستی دیکھ کر کچھ بات منہ سے نکال بیٹھا،
"اس ویران بستی کو اﷲ کیسے آباد کرےگا"
سامنے ایک درخت نظر آیا اس کے نیچے آرام کے خیال سے کچھ لیٹنے کا ارادہ کیا۔ایک طرف اپنے گدھےکو باندھا کھانے کا سامان سامنے اپنے پہلو میں رکھ لیا،اس غرض سے تھوڑی دیر سستانے کے بعد اٹھ کر کھالوں گا۔ابھی لیٹا ہی تھا ہوا کے نرم جھونکوں نے تھکاوٹ سے چور بدن کو آرام پہنچایا اور پھر پتہ ہی نہ چلا کہ نیند کب اس پر مہربان ہوگئی۔جب آنکھ کھلی تو سورج ڈھل رہاتھا تھکے جسم کو آرام مل چکا تھا،اب بھوک نے بے چین کیا اپنے کھانے کو ویسا ہی تازہ پایا۔مگر جب اپنے گدھے کی جانب دیکھا تو حیرت اور پریشانی سے منہ کھلاہی رہ گیا،یہ کیا !!گدھا کہاں چلا گیا ابھی حیرت سے باہر نہ آپایا تھا کہ اپنے ارگرد نظر پڑی،کیا دیکھتا ہے لوگ آجارہے ہیں دور دور تک آبادی ہی آبادی نظر آئی۔ایک الجھن اسے ابھی نکلا نہ تھا کہ کے دوسری الجھن سامنے تھی مگر اﷲتعالی یہ سب منظردیکھ رہےتھے،اپنے بندے کو پکار کر کہا،
اے میرے بندے!کیوں حیران ہےِ؟اور کیا تمہیں معلوم ہے کہ کتنے عرصے تک سویارہا۔کہنے لگا؛
اﷲ جی !ایک دن یا دن کا کچھ حصہ۔"مگر اﷲرب العالمین نے کہا؛اے میرے بندے تو ایک دن نہیں بلکہ تو ایک سوبرس سویارہا۔اپنے گدھے کو دیکھ اس کی ہڈیاں مٹی میں گل سڑچکی ہیں جبکہ کھانا صیح سلامت ہے"
پھرفرمایا؛اب دیکھ ہم مردوں کو زندہ کیسے کرتے ہیں،گدھے کی ہڈیاں جو مٹی میں مل چکی تھیں گوست جو سڑ کرمٹی ہوچکا تھا مگر اپنے رحمان کا حکم ملتے ہی سب ہڈیاں اڑ اڑ کر دوبارہ ایل جسم بنناشروع ہوگیا،گوست ان ہڈیوں کو دوبارہ پہنادیاگیا،گدھا اپنی اصلی حالت میں آگیا اور دوبارہ کھڑاہوگیا۔
یہ حیران اور پریشان ہونے والے حضرت عزیر علیہ السلام تھے یہ معجزہ دیکھا کر اﷲ تعالی نے تمام انسانیت کویہ کہنے پر مجبورکریا کہ اﷲ رب العالمین ہرچیزپرقادرہے۔
قرآن کریم میں بہت کیا خوبصورت انداز میں اﷲ تعالی نے اس نا نقشہ کھینچا:
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللَّـهُ الْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا أُحْيِي وَأُمِيتُ ۖ قَالَ إِبْرَاهِيمُ فَإِنَّ اللَّـهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ ۗ وَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ﴿٢٥٨﴾ أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَىٰ قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَىٰ عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّىٰ يُحْيِي هَـٰذِهِ اللَّـهُ بَعْدَ مَوْتِهَا ۖ فَأَمَاتَهُ اللَّـهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ ۖ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ ۖ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ۖ قَالَ بَل لَّبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانظُرْ إِلَىٰ طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ ۖ وَانظُرْ إِلَىٰ حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ آيَةً لِّلنَّاسِ ۖ وَانظُرْ إِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُنشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْمًا ۚ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴿٢٥٩﴾البقرہ
"یا اس شخص کے مانند کہ جس کا گزر اس بستی سے ہوا جو چھت کے بل اوندھی پڑی ہوئی تھی،وہ کہنے لگااس کی موت کے بعد اﷲتعالی اسے کس طرح زندہ کرےگا؟تو اﷲ تعالی نے اسے ماردیا سو سال کے لیےپھراسے اٹھایا،پوچھا کتنی مدت تجھ پرگزری؟کہنے لگا دن یا دن کا کچھ حصہ فرمایا بلکہ تو سوسال تک رہا پھر اپنے کھانے پینے کو دیکھ بالکل خراب نہیں ہوا اور اپنے گدھے کو دیکھ ہم تجھے لوگوں کے لیے ایک نشانی بنادیتے ہیں تو دیکھ ہم ہڈیوں کو کس طرح اٹھاتے ہیں ،پھران پر گوشت چڑھاتے ہیں،جب یہ سب ظاہر ہوچکا توکہنے لگامیں جانتا ہوں کہ اﷲ ہر چیز پر قادر ہے"۔
ایک سچا تاریخی اسلامی واقعہ ایک سچا تاریخی اسلامی واقعہ Reviewed by Unknown on 8:21 AM Rating: 5

آگ کو آگ کیسے جلائے گی

8:14 AM



آگ کو آگ کیسے جلاسکتی ہے
ایک شخص جو اپنے آپ کو فلسفی اور دانشور سمجھتا تھا۔امام شافعی رحمتہ اﷲ علیہ سے بحث و مباحثہ کرنے لگا۔کہنے لگا؛امام صاحب!اگر شیطان کو اﷲ تعالی نے آگ سے پیدا کیا ہے تو پھر جب اسے آگ میں ڈالیں گے تواسے تکلیف کیسے ہوگی،جب کہ اس کا خمیر ہی آگ سے ہے۔؟
امام شافعی رحمتہ اﷲ علیہ مسکرائے،زمین کی طرف دیکھا وہاں ایک خشک مٹی کا ڈھیلا اٹھا کر اس شخص کودےمارا،اس شخص کے چہرے پر غیظ و غضب کی علامت ظاہر ہوئیں۔
امام شافعی رحمتہ اﷲ علیہ نے نہایت اطیمنان اور پیار سے کہا؛لگتاہے،تمہیں میرے ڈھیلا مارنے سے تکلیف ہوئی ہے۔
اس نے غصے سے کہا؛ہاں کیوں نہیں،آپ نے مجھے تکلیف دی ہے۔امام شافعی رحمتہ اﷲ علیہ نے فرمایا یہ کیسے ممکن ہے کہ تم مٹی سے بنے ہوئے ہو اور تمہیں مٹی سے تکلیف ہو۔اس نام نہاد فلسفی کو جواب مل چکا تھا بحث اور جھگڑا ختم ہوگیا۔اس کو معلوم ہوگیا شیطان آگ سے پیدا ہوا ہے اور اﷲ آگ ہی سے عذاب دیں گے۔
آگ کو آگ کیسے جلائے گی آگ کو آگ کیسے جلائے گی Reviewed by Unknown on 8:14 AM Rating: 5

قارون کیسے غرق ہوا ۔۔ مکمل کہانی

6:36 AM
"قارون کا خزانہ"​
قارون حضرت موسی علیہ السلام کے چاچا کا لڑکا تھا یہ بہت خوش آواز تھا۔تورات بڑی خوش الحالی سے پڑھتاتھا۔اس لئے اسے لوگ منور کہتے تھے۔یہ چونکہ بہت مالدار تھا ،اس لئے اللہ کو بھول بیٹھا تھا۔قوم میں عام طور پر جس لباس کا دستور تھا اس نے اس سے بالشت بھر نیچا بنوایا تھا جس سے اس کا غرور اور تکبر اور اس کی دولت ظاہر ہو۔
اس کے پاس اس قدر مال تھا کہ اس کے خزانے کی کنجیاں اٹھانےپر قوی مردوں کی ایک جماعت مقرر تھی۔اس کے بہت سے خزانے تھے ہر خزانے کی کنجی الگ تھی جو بالشت بھر کی تھی۔قوم کے بزرگوں نے قارون کو نصیحت کی کہ اتنا اکڑا مت تو قارون نے جواب دیا کہ میں ایک عقلمند،زیرک،دانا شخص ہوں اور اسے اللہ بھی جانتاہے،اسی لئے اس نے مجھے دولت دی ہے۔
قارون ایک دن نہایت قیمتی پوشاک پہن کر رزق برق عمدہ سواری پر سوار ہوکر اپنے غلاموں کو آگے پیچھے بیش بہا پوشاکیں پہنائے ہوئے لے کر بڑے ٹھاٹھ سے اتراتا ہوا نکلا،اس کا یہ ٹھاٹھ اور یہ زینت و تجمل دیکھ کر دنیا داروں کے منہ میں پانی بھر آیا اور کہنے لگے کاش ہمارے پاس بھی اس جتنا مال ہوتا یہ تو بڑا خوش نصیب ہے اور بڑی قسمت والا ہے۔
قارون اس طمطراق سے نکلا وہ سفید قیمتی خچر پر بیش بہا پوشاک پہنے تھا تب ادھر حضرت موسی علیہ السلام خطبہ پڑھ رہے تھے،بنواسرائیل کا مجمع تھا سب کی نگائیں اس کی دھوم دھام پر لگ گئی حضرت موسی علیہ السلام نے اس سے پوچھا اس طرح کیسے نکلے ہو؟اس نے کہا ایک فضیلت اللہ نے تمہیں دے رکھی ہےاگر تمہارے پاس نبوت ہے تو میرے پاس عزت ؤ دولت ہے اگر آپ کو میری فضیلت میں شک ہے تو میں تیارٰ ہوں آپ اللہ سے دعا کریں دیکھ لیجئے اللہ کس کی دعا قبول کرتاہے آپ علیہ السلام اس بات پر آمادہ ہوگئے اور اسے لےکرچلے حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا:اب پہلے دعا کروں یا تو کرے گا قارون نے کہا میں کروں گا اس نے دعا مانگی لیکن قبول نہ ہوئی حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ تعالی سے سے دعا کی یا اللہ زمین کو حکم کر جو میں کہوں مان لے۔اللہ نے آپ علیہ السلام کی دعا قبول فرمائی اور وحی آئی میں نے زمین کو تیری اطاعت کا حکم دے دیاہے حضرے موسی علیہ السلام نے یہ سن زمین سے کہا:
"اے زمین اسے اور اس کے لوگوں کو پکڑ لے وہیں یہ لوگ اپنے قدموں تک زمین میں دھنس گئے،پھر مونڈھوں تک ،پھر فرمایا اس کے خزانے اور اس کے مال بھی یہیں لے آؤ اسی وقت قارون کے تمام خزانے آگئے آپ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ قاروں اپنے خزانے سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا زمین جیسی تھی ویسی ہوگئی "
ہے کوئی نصیحت پکڑنے والا!!!!!!!!!!!!!!!!!
قارون کیسے غرق ہوا ۔۔ مکمل کہانی قارون کیسے غرق ہوا ۔۔ مکمل کہانی Reviewed by Unknown on 6:36 AM Rating: 5

چرواہے کا تقوی

6:32 AM
"چرواہے کا تقویٰ"​
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی الله عنهما کے غلام نافع کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ عبداللہ بن عمر رضی الله عنهما مدینہ منورہ کے کسی کنارے کی طرف نکلے ۔ آپ کے ہمراہ آپ کے چند ساتھی بھی تھے ۔ ساتھیوں نے آپ کے کھانے کے لیے دسترخوان بچھایا ۔ اسی دوران وہاں سے ایک چرواہے کا گزر ہوا ۔
سیدنا ابن عمر رضی الله عنه نے اس سے کہا: ”چرواہے آؤ آؤ ! اس دسترخوان سے تم بھی کچھ کھا پی لو “
چرواہا بولا:”میں روزے سے ہوں“
عبداللہ بن عمر رضی الله عنهما نے کہا: ”اس طرح کے سخت گرم دن میں تم روزے کی مشقت برداشت کررہے ہو جبکہ لُو نہایت تیز ہے اور تم ان پہاڑوں میں بکریاں بھی چرا رہے ہو ۔“
چرواہے نے جواب دیا : جی ہاں! میں ان خالی ایام کی تیاری کررہا ہوں جن میں عمل کرنے کا موقع نہیں ملے گا، اسی لیے دنیوی زندگی میں عمل بجالا رہا ہوں ۔
عبداللہ بن عمر رضی الله عنهما نے چرواہے کے تقوی اور خوف الٰہی کا امتحان لینے کے ارادے سے اس سے کہا : کیا تم اس ریوڑ میں سے ایک بکری بیچ سکتے ہو، ہم تمہیں اس کی نقد قیمت دیں گے، مزید تمہارے افطار کے لیے گوشت بھی دیں گے؟
چرواہے نے جواب دیا :
”یہ بکریاں کوئی میری نہیں ہیں جو بیچ دوں بلکہ میرے آقا کی ہیں ، اس لیے میں تصرف نہیں کرسکتا “۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضي الله عنهما نے کہا: تمہارا آقا اگر کوئی بکری کم پائے گا اور تم اس سے کہہ دوگے وہ بکری گم ہوگئی ہے تو وہ کچھ نہیں کہے گا ، کیوں کہ ریوڑ سے ایک دو بکریاں پہاڑوں میں گم ہوتی ہی رہتی ہیں ۔
یہ سننا تھا کہ چرواہا سیدنا عبداللہ بن عمر رضی الله عنه کے پاس سے چل دیا ، وہ اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھا کر یہ جملہ کہتے جا رہا تھا
”پھر اللہ کہاں ہے۔ اللہ کہاں ہے؟ “​
جب چرواہا چلا گیا تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی الله عنهما اس کا یہ جملہ بار بار دہرانے لگے : ’’ پھر اللہ کہاں ہے؟ اللہ کہاں ہے؟“
جب سیدنا عبداللہ بن عمر رضی الله عنهما مدینہ آئے تو چرواہے کے آقا کے پاس انہوں نے اپنے آدمی بھیجے اور اس سے بکریاں اور اس چرواہے کو خرید کر اسے آزاد کردیا اور وہ بکریاں اسے ہبہ کردیں۔
چرواہے کا تقوی چرواہے کا تقوی Reviewed by Unknown on 6:32 AM Rating: 5

پہلی چوری

6:29 AM
حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲعنہ کے پاس ایک چورلایاگیا جرم ثابت ہونے پر آپ نے حکم دیا اسکا ہاتھ کاٹ دیاجائے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲعنہ نہایت رفیق القلب تھے،چور نے انکی طرف دیکھا عرض کی؛
خلیفہ رسول!میرے اوپر رحم کیجیے درگزر فرمائیے،میں نے اس سے پہلے کبھی چوری نہیں کی۔
ابوبکر صدیق رضی اﷲعنہ نے فرمایاۛۛ:
"تو جھوٹ بولتاہےکہ میری پہلی چوری ہے،اس ذات کی قسم جسکے ہاتھ میں میری جان ہے اﷲ اپنے بندے کے پہلے جرم اور گناہ پر اسکو کبھی سزا نہیں دیتا۔"
انس بن مالک رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ کے پاس ایک چور لایاگیا۔اس نے کہا:
'اﷲ کی قسم!اس سے پہلے میں نے کبھی چوری نہیں کی۔'
عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ نے فرمایا؛
توجھوٹا ہے عمر کے رب کی قسم!اﷲتعالی اپنے بند کے پہلے گناہ کی بدولت اسے کبھی نہیں پکڑتا۔
اس مجلس میں حضرت علی رضی اﷲ عنہ بھی موجود تھے۔انھوں نے فرمایا کہ اﷲ تعالی بہت زیادہ حلیم وبردبارہے اور وہ اپنے بندے کو پہلے گناہ کی بدولت نہیں پکڑتا کیونکہ وہ تو رحیم اور کریم ہے۔حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے اپنا فیصلہ سنایا اور چور کا ہاتھ کاٹ دیا۔
ہاتھ کٹنے کے بعد حضرت علی رضی اﷲ عنہ اس چور کے پاس گئے اور کہا؛
"تمہیں اﷲ کی قسم دےکر پوچھتاہوں کتنی مرتبہ چوری کے مرتکب ہوئے ہو؟"
اس نے کہا؛اکیس مرتبہ
پہلی چوری پہلی چوری Reviewed by Unknown on 6:29 AM Rating: 5

اداکاراؤں سے متعلق ۔ کھانا کھاتے وقت سب سے موبائل کے کے بند کر دئیے ۔ dasrii

1:27 AM
معروف پاکستانی اداکار ایوب کھوسہ کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں دوستوں کے ساتھ کسی ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے سے قبل انہوں نے سب کے موبائل فون لے کر اپنے پاس رکھ لیے۔
ایوب کھوسہ اپنے دوستوں کے موبائل فون پر مصروف ہونے سے اس قدر پریشان ہوگئے کہ سب سے فون لے کر ایک تھیلے میں بھرنے شروع کر دئیے۔

دوست پہلے تو حیرا ن ہوئے اور پھر کچھ احتجاج بھی کیا تاہم پھر ایوب کھوسہ کے سامنے بے بس ہو گئے اور سب نے اپنے موبائل ایوب کودے دئیے ۔
ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ا یوب کھو سہ نے وہاں موجود تمام افراد کے موبائل فونز لیے اور اپنے موبائل کے ساتھ انہیں ایک پلاسٹک کے تھیلے میں ڈال کر گرہ لگادی۔
یہ دلچسپ ویڈیو دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی اور لوگوں نے اس ویڈیو کو بیحد پسند کیا۔
ایوب کھوسہ کے اس عمل نے لوگوں کو یہ پیغام ضرور دیا ہے کہ اہلخانہ یا دوستوں کی محفلوں میں موبائل فون کے سحر سے نکل کر ایک دوسرے کو وقت دینا کچھ بہت زیادہ مشکل امر نہیں، بس اس کے لیے ایک 'پلاسٹک کے تھیلے کی ضرورت ہے جس میں تمام موبائل جمع کیے جاسکیں۔
اداکاراؤں سے متعلق ۔ کھانا کھاتے وقت سب سے موبائل کے کے بند کر دئیے ۔ dasrii اداکاراؤں سے متعلق ۔ کھانا کھاتے وقت سب سے موبائل کے کے بند کر دئیے ۔ dasrii Reviewed by Unknown on 1:27 AM Rating: 5

ہمارے ملک میں پائے جانے والے مذہبی و معاشرتی رجحانات اور لوگوں کے روئیے

9:32 PM

لبرل: ایسے افراد کے نزدیک مذہب عقائد اور ان کا احترام دقیانوسی باتیں ہیں جن کی آج کے ترقی یافتہ دور میں کوئی جگہ نہیں ایسے لوگوں کا مقصد مذہبی معاملات کو کم تر اور حقیر ثابت کرنا ہوتا ہے کیوں کہ مذہب ان کی بہت سی ناجائز عادتوں پر قدغن لگاتا ہے جو انھیں کسی طرح قبول نہیں ایسے افراد لبرلز کہلاتے ہیں اور ان کی اچھی خاصی تعداد آپ کو میڈیا میں بھی نظر آئے گی جو مذہبی رحجانات کو کمتر اور دقیانوسی سمجھ کر ان پر تنقید کرتے رہتے ہیں۔

عام مسلمان: ایسے افراد متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور مذہبی معاملات میں جذباتی ہوتے ہیں یہ افراد ایسے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں جہاں بچپن سے ہی ان کو مذہبی رجحانات سے واقفیت کروا دی جاتی ہے نماز کی پابندی اور قرآن پاک کی تلاوت ان کے معمولات میں شامل ہوتا ہے اس طرح کے افراد دنیاوی معاملات میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اس طرح ایک مشرقی مذہبی سوچ جنم لیتی ہے جو دین کے ساتھ ساتھ اپنے حدود میں رہتے ہوئے دنیاوی معاملات میں بھی اپنا حصہ ڈالتی ہے۔

مذہبی انتہا پسند: ایسے لوگ شدت پسند رجحانات کے حامل ہوتے ہیں ان کے نزدیک ان کا نظریہ ہی درست ہوتا ہے اور ان کے نظریے سے اتفاق نہ کرنے والا کافر ٹھہرتا ہے۔بعض اوقات اس طرح کے لوگ ریاست کے لئے چیلنج بن جاتے ہیں ان کی جڑیں عوام میں بڑی مضبوط ہوتی ہیں اس کی وجہ مذہبی تعلیم اور مطالعہ کی کمی ہے ایسے افراد کو معاشرہ مذہبی انتہا پسند کا نام دیتا ہے۔

اعتدال پسند: اس طبقے میں وہ علمائے کرام شامل ہیں جو اپنے آپ کو ان فتنوں سے الگ تھلگ کرکے اپنے کام میں مگن ہیں وہ افراد کی ایسی کھیپ تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو معاشرے کے لئے کارگر بھی ہو اور اس کی اصلاح کا باعث بھی بنے ان کے وسائل محدود اور مسائل لاتعداد ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اس جہاد میں مصروف عمل ہیں پچھلے دنوں آسیہ بی بی کے معاملے پر اس طبقے نے بھی اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا نہ کوئی شیشہ ٹوٹا اور نہ کوئی پتھر اپنی جگہ سے ہلا حیرت کی بات تو یہ ہے کہ مولانا سمیع الحق کی شہادت کی خبر پر بھی انتہائی صبر اور تحمل سے کام لیا گیا اور ریاست کو نقصان پہنچائے بغیر اس عظیم غم کو برداشت کیا گیا۔ یہ کوئی خلائی مخلوق نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں اور ہمیں ان سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔

ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ صرف مذہبی رجحانات کو انتہاپسندی کا نام دیا جاتاہے لیکن کیا لبرلزم اپنی انتہا پر نہیں ہے لفظ انتہاپسندی سے ہی ظاہر ہے کہ اس سے مراد معاشرے کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز کرنا ہے کیا آج ہم ذرائع ابلاغ پر جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ انتہا پسندی نہیں؟ کیا مذہبی رجحانات کی نفی کرکے اس کی جگہ مغربی معاشرے کو رائج کرنے کی کوشش نہیں کی جا رہی کیا فلموں اور ڈراموں کے ذریعے خاندانی نظام کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں ہو رہی کیا آج ہمارے قومی ٹی وی پر چلنے والے ڈراموں میں طلاق، شادی شدہ عورت کا غیر مرد سے تعلق، بے راہ روی، معاشرے کے ہر شعبے میں مخلوط نظام کی ترویج کے موضوعات نہیں دکھائے جا رہے کیا عورت کی آزادی کے نام پر عورت تک پہنچنے کی آزادی پر کام نہیں ہو رہا کیا آج یہ کوشش نہیں کی جا رہی کہ کسی طریقے سے پاکستان کے وجود کے نظریے کو ہی تبدیل کردیا جائے کیا آج کے معاشرے میں یہ سوچ ہموار نہیں کی جا رہی کہ مذہبی رجحانات اور مذہبی وضع قطع رکھنے والے افراد دہشت گردوں کے حامی ہیں داڑھی جو کے شائر اسلام میں شامل ہے کا مذاق نہیں اڑایا گیا کیا پائنچے اونچے رکھنے پر دقیانوسی کے طعنے نہیں دیے گئے میرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ کرنے والے لبرل انتہا پسند نہیں ہیں؟ کیا ان کے اس طرز عمل سے عدم برداشت کا مادہ نہیں جلکتا یہ وہی عدم برداشت تھا جو سلمان تاثر کے لبوں پر آیا اور ذرائع ابلاغ نے اس کی خوب تشہیر کی اور اس کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔

ان لبرلز کا خیال ہے کہ ریاست انتہا پسندوں (یہ انتہا پسندی کے الفاظ صرف مذہب کے لیے استعمال کرتے ہیں) کے ہاتھوں یرغمال ہے جیسا کہ پچھلے دنوں آسماء شیرازی صاحبہ نے اپنے کالم میں تحریر کیا ان محترمہ اور اس طرح کے بہت سے کرداروں نے پوری کوشش کی کہ ریاست کسی طرح احتجاج کرنے والوں کے خلاف طاقت کا استعمال کرے اور بدقسمتی سے اپوزیشن نے بھی درپردہ اس موقف کی حمایت کی اس طرح کے اور بھی بہت سے کردار آپ کو یہاں ملیں گے جو دراصل اس وقت ریاست کو یرغمال بنائے بیٹھے ہیں اور اس بات پر تلے ہوئے ہیں کہ کسی طرح پاکستان سے اسلامی نظریئے کو حذف کر دیا جائے۔

مذہب ایک انتہائی حساس معاملہ ہے جس پر لوگ جان قربان کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے جب ایک طبقے کے ان رجحانات کو طاقتور ترین ذرائع ابلاغ کے ذریعے ٹھیس پہنچائی جائے گی مذہبی طبقہ کو دیوار سے لگایا جائے گا تو کیوں مذہبی انتہاپسندی وجود میں نہیں آئے گی کیا ذرائع ابلاغ کے طاقتور ہونے سے پہلے ہمارے معاشرے میں اس حد تک انتہاپسندی تھی کیا نظریہ پاکستان کے تبدیل کرنے کی باتیں ہوتی تھی کیا مذہبی رجحانات رکھنے والے افراد کو دہشت گردوں کا حامی قرار دے کر ان کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا؟
ہمارے ملک میں پائے جانے والے مذہبی و معاشرتی رجحانات اور لوگوں کے روئیے ہمارے ملک میں پائے جانے والے مذہبی و معاشرتی رجحانات اور لوگوں کے روئیے Reviewed by Unknown on 9:32 PM Rating: 5

ایک دلچسپ تحریر

10:20 AM
دلچسپ تحریر
ہارون الرشید نے ایک دن شاہی باورچی سے دریافت کیا ، کیا جزدر (ایک قیمتی و نایاب جانور) کو گوشت ہے مطبخ خانے میں ؟
ہر طرح کا ہے حضور ۔ شاہی باورچی نے جواب دیا
تو آج رات کا ڈنر اسی سے ہوگا
رات کا کھانا لگایا گیا ، ہارون الرشید نے جزدر کے گوشت کا ایک نوالہ منہ میں رکھا پاس جعفر برمکی کھڑا تھا وہ ہنس دیا ، ہارون الرشید نے دریافت کیا کہ تم ہنسے کیوں ؟
جعفر نے کہا کہ بس چھوڑیئے ۔ ہارون الرشید کہنے لگے نہیں جب تک بتاو گئے نہیں میں کھانا نہیں کھاوں گا
آپ کے خیال میں یہ جو ابھی ایک لقمہ آپ نے کھایا ہے اسکی مالیت کیا ہوگی ؟ جعفر نے دریافت کیا ؟
قریبا تین ہزار درہم ۔ ہارون الرشید کا جواب تھا
نہیں حضور اسکی قیمت 4 لاکھ درہم ہے ، جعفر حیران کرنے پر تلا ہوا تھا
یہ سن کر ہارون الرشید کے کان کھڑے ہوگئے پوچھا وہ کیسے ؟
جعفر کہنے لگا کہ کچھ عرصہ قبل بھی آپ نے اس گوشت کی فرمائش کی تھی اتفاق سے یہ گوشت اس وقت موجود نہ تھا آپ نے کہا کہ یہ گوشت شاہی باورچی خانے میں موجود رہنا چاہیے آپ تو یہ بات کرکے بھول گئے لیکن ہر روز اس جانور کے گوشت کی فراہمی یقینی بنائی گئی لیکن آپ نے دوبارا فرمائش نہیں کی ، آج کی ہے اور ابھی تک 4 لاکھ درہم کا گوشت خریدا جاچکا ہے ، بس مجھے اسی بات پر ہنسی آگئی کہ ایک ڈش کے لیے چار لاکھ درہم ابھی تک صرف ہوچکے ہیں
یہ سننا تھا کہ ہارون الرشید کا خوف کے مارے برا حال ہوگیا زاروقطار رونے لگا کہ اسکی وجہ سے اتنا اسراف ہوگیا حکم دیا کہ دسترخوان اٹھا لیا جائے اور کچھ نہ کھایا ، مداوا کے لیے دو لاکھ درہم مکہ و مدینہ کے مستحق لوگوں کی طرف بطور خیرات بھیجے اور اتنے ہی کوفہ و بغداد کے فقرا میں تقسیم کیے لیکن قلق پھر بھی باقی رہا اور غم کے مارے کچھ نہ کھا سکا ، یہاں تک کے قاضی ابویوسفؒ تشریف لائے پوچھا اس حال کی کیا وجہ ہے ؟ خلیفہ نے ماجرا بیان کیا
ابویوسفؒ نے ساتھ کھڑے جعفر برمکی سے پوچھا کہ یہ جو ہرروز جانور ذبح کیا جاتا تھا کیا اسکا گوشت ضائع ہوجاتا تھا ؟ اس نے جواب دیا نہیں ضائع تو نہیں ہوتا تھا بلکہ اسکو غریب لوگوں میں تقسیم کردیا جاتا تھا
ابویوسفؒ نے یہ سن کر خلیفہ کو تسلی دی کہ آپ پریشان نہ ہو بلکہ آپ کی بدولت غریب لوگ بھی ایسا شاندار کھانا کھاتے رہے ہیں اور یہ ایک صدقے کی مانند ہے
یہ سن کر خلیفہ کا رنج و الم دور ہوا اور اس نے کھانا کھایا

بحوالہ البدایہ و النہایہ از امام ابن کثیرؒ

ایک دلچسپ تحریر ایک دلچسپ تحریر Reviewed by Unknown on 10:20 AM Rating: 5

شعرو شاعری کی بہترین اور خوبصورت کولیکشن

10:08 AM
شعر و شاعری



شعرو شاعری کی بہترین اور خوبصورت کولیکشن شعرو شاعری کی بہترین اور خوبصورت کولیکشن Reviewed by Unknown on 10:08 AM Rating: 5

صبر اور اجر ۔ مولانہ جلال الدین رومی کی حکایات ۔ Dasrii.blogspot.com

10:00 AM

ایک عورت کو اللّٰہ ہر بار اولادِ نرینہ سے نوازتا مگر چند ماہ بعد وہ بچہ فوت ہو جاتا۔ لیکن وہ عورت ہر بار صبر کرتی اور اللّٰہ کی حکمت سے راضی رہتی تھی۔ مگر اُس کے صبر کا امتحان طویل ہوتا گیا اور اسی طرح ایک کے بعد ایک اُس عورت کے بیس بچّے فوت ہوئے۔ آخری بچّے کے فوت ہونے پر اُس کے صبر کا بندھن ٹوٹ گیا۔ وہ آدھی رات کو زندہ لاش کی طرح اُٹھی اور اپنے خالقِ حقیقی کے سامنے سر سجدے میں رکھ کر خوب روئی اور اپنا غم بیان کرتے ہوئے کہا اے کون و مکاں کے مالک.! تیری اِس گناہگار بندی سے کیا تقصیر ہوئی کہ سال میں نو مہینے خونِ جگر دے کر اِس بچّے کی تکلیف اُٹھاتی ہوں اور جب اُمید کا درخت پھل لاتا ہے تو صرف چند ماہ اُس کی بہار دیکھنا نصیب ہوتا ہے۔ آئے دن میرا دل غم کے حول کا شکار رہتا ہے کہ میرا بچّہ پروان چڑھے گا بھی کہ نہیں۔ اے دُکھی دلوں کے بھید جاننے والے.! مجھ بےنوا پر اپنا لطف و کرم فرما دے۔" روتے روتے اُسے اونگھ آ گئی۔ خواب میں ایک شگفتہ پُربہار باغ دیکھا جس میں وہ سیر کر رہی تھی کہ سونے چاندی کی اینٹوں سے بنا ایک محل نظر آیا جس کے اوپر اُس عورت کا نام لکھا ہُوا تھا۔ باغات اور تجلیات دیکھ کر وہ عورت خوشی سے بیخود ہو گئی۔ محل کے اندر جا کر دیکھا تو اُس میں ہر طرح کی نعمت موجود تھی اور اُس کے تمام بچّے بھی اُسی محل میں موجود تھے جو اُسے وہاں دیکھ کے خوشی سے جھُوم اُٹھے تھے۔ پھر اُس عورت نے ایک غیبی آواز سُنی کہ "تُو نے اپنے بچّوں کے مرنے پر جو صبر کیا تھا, یہ سب اُس کا اجر ہے۔" خوشی کی اِس لہر سے اُس کی آنکھ کھل گئی۔ جب وہ خواب سے بیدار ہوئی تو اُس کا سارا ملال جاتا رہا اور اُس نے بھیگی ہوئی آنکھوں سے عرض کیا "یا الہٰی اب اگر تُو اِس سے بھی زیادہ میرا خُون بہا دے تو میں راضی ہوں۔ اب اگر تُو سینکڑوں سال بھی مجھے اِسی طرح رکھے تو مجھے کوئی غم نہیں۔ یہ انعامات تو میرے صبر سے کہیں زیادہ ہیں۔" حکایت نمبر 63, مترجم کتاب "حکایاتِ رومی" از حضرت مولانا جلال الدین رومی Posted
صبر اور اجر ۔ مولانہ جلال الدین رومی کی حکایات ۔ Dasrii.blogspot.com صبر اور اجر ۔ مولانہ جلال الدین رومی کی حکایات ۔ Dasrii.blogspot.com Reviewed by Unknown on 10:00 AM Rating: 5

شیطانی زور اور اللہ پاک کا ڈر۔ ایک سبق آموز قصہ Dasrii

9:57 AM

یہ واقعہ شام کے شہر دمشق میں ہوا۔ایک نوجوان خوبصورت لڑکی روزانہ اکیلی یونیورسٹی جاتی تھی اسی یونیورسٹی میں اسکا والد ایک ڈپارٹمنٹ کا انچارج تھا۔ایک دن چھٹی کے فورا بعد اچانک بادل گرجنے لگے اور زوردار بارش ہونے لگی ،ہر کوئی جائے پناہ کی تلاش میں دوڑ رہا تھا،سردی کی شدت بڑھنے لگی، آسمان سے گرنے والے اولے لوگوں کے سروں پر برسنے لگے،یہ لڑکی بھی یونیورسٹی سے نکلی اور جائے پناہ کی تلاش میں دوڑنے لگی، اس کا جسم سردی سے کانپ رہا تھالیکن یہ نہیں جانتی تھی کہ اسے پناہ کہاں ملے گی،جب بارش تیز ہوئی تو اس نے ایک دروازہ بجایا، گھر میں موجود لڑکا باہر نکلا اور اسے اندر لے آیا اور بارش تھمنے تک اپنے گھر میں رہنے کی اجازت دے دی،دونوں کا آپس میں تعارف ہوا تو معلوم ہوا کہ لڑکا بھی اسی یونیورسٹی میں پڑھتا ہے جہاں وہ خود زیر تعلیم ہے۔اور اس شہر میں اکیلا رہتا ہے،ایک کمرہ برامدہ اور باتھ روم اس کا کل گھر تھا نوجوان نے اسے کمرے میں آرام کرنے کو کہا اور اسکے پاس ہیٹر رکھ دیا اور کہا کہ کمرہ جب گرم ہو جائے گا تو وہ ہیٹر نکال لے گا،تھوڑی دیر لڑکی بستر پر بیٹھی کانپتی رہی،اچانک اسے نیند آ گئی تو یہ بستر پر گرگئی۔نوجوان ہیٹر لینے کمرے میں داخل ہوا تو اسے یہ بستر پر سوئی ہوئی لڑکی جنت کی حوروں کی سردار لگی وہ ہیٹر لیتے ہی فورا کمرے سے باہر نکل گیالیکن شیطان جو کہ اسے گمراہ کرنے کے موقع کی تلاش میں تھااسے وسوسے دینے لگا اس کے ذہن میں لڑکی کی تصویر خوبصورت بنا کر دکھانے لگاتھوڑی دیر میں لڑکی کی آنکھ کھل گئی، جب اس نے اپنے آپ کو بستر پر لیٹا ہوا پایا تو ہڑبڑا کر اٹھ گئی اور گھبراہٹ کے عالم میں بے تحاشا باہر کی طرف دوڑنے لگی اس نے برامدے میں اسی نوجوان کو بیہوش پایا وہ انتہائی گھبراہٹ کی عالم میں گھر کی طرف دوڑنے لگی اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا یہاں تک کہ اپنے گھر پہنچ کر باپ کی گود میں سر رکھ دیا جو کہ پوری رات اسے شہر کے ہر کونے میں تلاش کرتا رہا تھااس نے باپ کو تمام واقعات من و عن سنا دیے اور اسے قسم کھا کر کہا کہ میں نہیں جانتی جس عرصہ میں میری آنکھ لگی کیا ہوامیرے ساتھ کیا کیا گیا، کچھ نہیں پتا،اسکا باپ انتہائی غصے کے عالم میں اٹھا اور یونیورسٹی پہنچ گیا اور اس دن غیر حاضر ہونے والے طلبہ کے بارے میں پوچھا تو پتا لگا کہایک لڑکا شہر سے باہر گیا ہے اور ایک بیمار ہے، ہسپتال میں داخل ہے،باپ ہسپتال پہنچ گیا تاکہ اس نوجوان کو تلاش کرے اور اس سے اپنی بیٹی کا انتقام لے،ہسپتال میں اسکی تلاش کے بعد جب اسکے کمرے میں پہنچا تو اسے اس حالت میں پایا کہ اسکی دونوں ہاتھوں کی انگلیاں پٹیوں سے بندھی ہوئی تھی اس نے ڈاکٹر سے اس مریض کے بارے میں پوچھا تو ڈاکٹر نے بتایا جب یہ ہمارے پاس لایا گیا تو اسکے دونوں ہاتھ جلے ہوئے تھے باپ نے نوجوان سے کہاکہ تمہیں اللہ کی قسم ہے!مجھے بتاؤ کہ تمہیں کیا ہوا ہے باپ نے اپنا تعارف نہیں کروایا،وہ بولا ایک لڑکی کل رات بارش سے بچتی ہوئی میرے پاس پناہ لینے کے لیے آئی،میں نے اسے اپنے کمرے میں پناہ تو دے دی لیکن شیطان مجھے اس کے بارے میں پھسلانے لگا تو میں اسکے کمرے میں ہیٹر لینے کے بہانے داخل ہوا، وہ سوئی ہوئی لڑکی مجھے جنت کی حور لگی، میں فورا باہر نکل آیا لیکن شیطان مجھے مسلسل اسکے بارے میں پھسلاتا رہا اور غلط خیالات میرے ذہن میں آتے رہے تو جب بھی شیطان مجھے برائی پر اکساتا میں اپنی انگلی آگ میں جلاتا تاکہ جھنم کی آگ اور اسکے عذاب کو یاد کروں اور اپنے نفس کو برائی سے باز رکھ سکوں یہاں تک کہ میری ساری انگلیاں جل گئی اور میں بے ہوش گیا ،مجھے نہیں پتا کہ میں ہسپتال کیسے پہنچا۔یہ باتیں سن کر باپ بہت حیران ہوا۔ بلند آواز سے چلایا اے لوگو۔۔۔۔۔۔! گواہ رہو میں نے اس پاک سیرت لڑکے سے اپنی بیٹی کا نکاح کر دیا ہے سبحان اللہ یہ ہے اللہ سے ڈرنے والوں کا ذکر،اگر اللہ کا خوف نہ ہوتا تو اس لڑکی کی عزت محفوظ نہ رہ سکتی۔جو بھی لڑکا یا لڑکی ناجائز تعلقات قائم کرتے ہیں یا غیر شرعی دوستیاں یا محبتیں کرتے ہیں تو وہ اپنے اس برے فعل کو چھپانے کی حتیٰ الامکان کوشش کرتے ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ والدین ان کے ان کاموں سے بے خبر رہیں حالانکہ وہ یہ جانتے ہیں کہ اللہ ان کے ہر فعل سے با خبر ہےپھر بھی انکے دل میں اللہ کا خوف پیدا نہیں ہوتا !!ایسا کیوں ہے؟؟کیونکہ والدین نے بچپن سے ان کے دل و دماغ میں اللہ کے خوف کے بجائے اپنا ذاتی خوف،رعب و دبدبہ ،سزا کا ڈر ہی بٹھایا ہے۔اسی لیے آج وہ اللہ سے بے پرواہ ہو کر والدین سے چھپ کر گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں۔اور ایسے بھی والدین ہیں جنہوں نے اپنی اولاد کی تربیت خوف خدا پر کی تو انکی اولاد نے بھی ہمیشہ برائیوں سے اپنے آپ کو باز رکھا
شیطانی زور اور اللہ پاک کا ڈر۔ ایک سبق آموز قصہ Dasrii شیطانی زور اور اللہ پاک کا ڈر۔ ایک سبق آموز قصہ Dasrii Reviewed by Unknown on 9:57 AM Rating: 5

علامہ اقبال

9:54 AM

اتنی عظیم شخصیت پہ لکھتے ہوئے محسوس ہو رہا کہ الفاظ ساتھ دیں گے بھی یا نہیں ؟ اتنا بڑا شاعر کہ جس کی شاعری نے برصغیر کے طول و عرض میں اک آگ سی لگا دی۔ قیام پاکستان سے قبل مسلمانان برصغیر کی اکثریت تو شاید خود کو بھلا ہی بیٹھی تھی ۔ ان کے حالات ایسے تھے کہ سوائے چند ایک کے باقی سب غربت کی چکی میں پس رہے تھے اور ان پڑھ تھے کیونکہ ان سے بنیادی حقوق چھین لئے
علامہ اقبال علامہ اقبال Reviewed by Unknown on 9:54 AM Rating: 5

مسکرائیے

9:50 AM
مسکرائیے

پروفیسر صاحب انتہائی اہم موضوع پر لیکچر دے رہے تھے، جیسے ہی آپ نے تختہ سیاہ پر کچھ لکھنے کیلئے رخ پلٹا کسی طالب علم نے  سیٹی ماری۔
پروفیسر صاحب نے مڑ کر پوچھا کس نے سیٹی ماری ہے تو کوئی بھی جواب دینے پر آمادہ نہ ہوا۔ آپ نے قلم بند کر کے جیب میں رکھا اور رجسٹر اٹھا کر چلتے ہوئے کہا؛ میرا لیکچر اپنے اختتام کو پہنچا اور بس آج کیلئے اتنا ہی کافی ہے۔
پھر انہوں نے تھوڑا سا توقف کیا، رجسٹر واپس رکھتے ہوئے کہا، چلو میں آپ کو ایک قصہ سناتا ہوں تاکہ پیریڈ کا وقت بھی پورا ہوجائے۔

کہنے لگے: رات میں نے سونے کی بڑی کوشش کی مگر نیند کوسوں دور تھی۔ سوچا جا کر کار میں پٹرول ڈلوا آتا ہوں تاکہ اس وقت پیدا ہوئی کچھ یکسانیت ختم ہو، سونے کا موڈ بنے اور میں صبح سویرے پیٹرول ڈلوانے کی اس زحمت سے بھی بچ جاؤں۔
پھر میں نے پیٹرول ڈلوا کر اُسی علاقے میں ہی وقت گزاری کیلئے ادھر اُدھر ڈرائیو شروع کردی۔
کافی مٹرگشت کے بعد گھر واپسی کیلئے کار موڑی تو میری نظر سڑک کے کنارے کھڑی ایک لڑکی پر پڑی، نوجوان اور خوبصورت تو تھی مگر ساتھ میں بنی سنوری ہوئی بھی، لگ رہا تھا کسی پارٹی سے واپس آ رہی ہے۔
میں نے کار ساتھ جا کر روکی اور پوچھا، کیا میں آپ کو آپ کے گھر چھوڑ دوں؟
کہنے لگی: اگر آپ ایسا کر دیں تو بہت مہربانی ہوگی، مجھے رات کے اس پہر سواری نہیں مل پا رہی۔
لڑکی اگلی سیٹ پر میرے ساتھ ہی بیٹھ گئی، گفتگو انتہائی مہذب اور سلجھی ہوئی کرتی تھی، ہر موضوع پر مکمل عبور اور ملکہ حاصل تھا، گویا علم اور ثقافت کا شاندار امتزاج تھی۔
میں جب اس کے بتائے ہوئے پتے ہر اُس کے گھر پہنچا تو اُس نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اُس نے مجھ جیسا باشعور اور نفیس انسان نہیں دیکھا، اور اُس کے دل میں میرے لیئے پیار پیدا ہو گیا ہے۔
میں نے بھی اُسے صاف صاف بتاتے ہوئے کہا، سچ تو یہ ہے کہ آپ بھی ایک شاہکار خاتون ہیں، مجھے بھی آپ سے انتہائی پیار ہو گیا ہے۔ ساتھ ہی میں نے اُسے بتایا کہ میں یونیوسٹی میں پروفیسر ہوں، پی ایچ ڈی ڈاکٹراور معاشرے کا مفید فرد ہوں۔ لڑکی نے میرا ٹیلیفون نمبر مانگا جو میں نے اُسے بلا چوں و چرا دیدیا۔
میری یونیورسٹی کا سُن کر اُس نے خوش ہوتے ہوئے کہا؛ میری آپ سے ایک گزارش ہے۔
میں نے کہا؛ گزارش نہیں، حکم کرو۔
کہنے لگی؛ میرا ایک بھائی آپ کی یونیوسٹی میں پڑھتا ہے، آپ سے گزارش ہے کہ اُس کا خیال رکھا کیجیئے۔
میں نے کہا؛ یہ تو کوئی بڑی بات نہیں ہے، آپ اس کا نام بتا دیں۔
کہنے لگی؛ میں اُس کا نام نہیں بتاتی لیکن آپ کو ایک نشانی بتاتی ہوں، آپ اُسے فوراً ہی پہچان جائیں گے۔
میں نے کہا؛ کیا ہے وہ خاص نشانی، جس سے میں اُسے پہچان لوں گا۔
کہنے لگی؛ وہ سیٹیاں مارنا بہت پسند کرتا ہے۔
پروفیسر صاحب کا اتنا کہنا تھا کہ کلاس کے ہر طالب علم کی نظر غیر ارادی طور پر اُس لڑکے کی طرف اُٹھ گئی جس نے سیٹی ماری تھی۔
پروفیسر صاحب نے اُس لڑکے کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا، اُٹھ اوئے جانور، تو کیا سمجھتا ہے میں نے یہ پی ایچ ڈی کی ڈگری گھاس چرا کر لی ہے کیا
مسکرائیے مسکرائیے Reviewed by Unknown on 9:50 AM Rating: 5

ممنوع (100 لفظوں کی کہانی ) Dasrii

9:40 AM

دمشق میں مسجدِ اُمیّہ کے چار دروازے ہیں اور میں سب سے گزرا ہوں۔

کبھی کسی نے نہیں روکا۔

عراق میں مسجدِ کوفہ کے پانچ دروازے ہیں اور میں سب سے گزرا ہوں۔

کبھی کسی نے نہیں روکا۔

مدینے میں مسجدِ نبوی ﷺ کے چھ مرکزی دروازے ہیں اور میں پانچ سے گزرا ہوں۔

کبھی کسی نے نہیں روکا۔

مکہ میں مسجد الحرام کے پچانوے دروازے ہیں، میں پچھتر سے گزرا ہوں۔

کبھی کسی نے نہیں روکا۔

میرے محلے کی مسجد کا صرف ایک دروازہ ہے۔

جب بھی اُس دروازے پر پہنچتا ہوں، مجھے روک کر میرا مسلک پوچھا جاتا ہے۔
ممنوع (100 لفظوں کی کہانی ) Dasrii ممنوع  (100 لفظوں کی کہانی )   Dasrii Reviewed by Unknown on 9:40 AM Rating: 5

نوکری (100 لفظوں کی کہانی)

9:09 AM

چائے پیتے ہوئے میں نے دوست سے پوچھا۔ تمہارا پچھلا سال کیسا گزرا ! یقینا بہت ہی اچھا، اس سے اچھا سال زندگی میں کبھی نہیں گزرا۔ کیوں کیا خاص وجہ تھی ؟ میں نے پوچھا ۔ دوست نے بتایا ۔ نوکری کی تلاش تھی وہ مل گئی۔ دوسروں سے پیسے لے کر پڑھائی کر رہا تھا۔ اب پڑھ کر دوسروں کو بھی پڑھا رہا ہوں ۔ ایسی کیا بات تھی! میں نے حیرانی سے پوچھا ۔ دوست نے کہا کسی بزرگ نے مجھے کہا تھا ۔ نیا کام کرنے سے پہلے ۔۔۔ اپنی والدہ کا چہرا محبت سے دیکھنا۔ دعا قبول ہوگی۔
نوکری (100 لفظوں کی کہانی) نوکری (100 لفظوں کی کہانی) Reviewed by Unknown on 9:09 AM Rating: 5

بری بات (100 لفظوں کی کہانی)

8:57 AM
فریحہ اپنے چار سالہ بیٹے اسد کے ساتھ بالکونی سے باہر کا نظارہ کر رہی تھی- کہ اسے کچھ بچے نظر آئے جو رام نام سچے ہیں کی گردان کر رہے تھے کہ اچانک کسی کی آواز گونجی
تمہارا باپ مر گیا ہے کیا؟
یہ سن کر بچوں کو سانپ سونگھ گیا اور وہ خاموشی سے وہاں سے چلے گئے-
مما : یہ کیا کہہ رہے تھے؟ ننھے اسد نے سوال کیا
کچھ نہیں بیٹا یہ بہت گندے بچے تھے یہ بہت بری بات کر رہے تھے– چلو بس اب اندر چلتے ہیں
ٹن ٹن۔۔۔۔۔۔۔۔ٹن ---------------- مما پپا آگئے – پپا ایک منٹ رکیں-
مما پپا کی آرتی اُتارتے ہیں – دیکھیں نا پپا کتنے اچھے لگ رہے ہیں-
فریحہ نے اپنی شرمندگی پر با مشکل قابو پاتے ہوئے کہا –
دیکھا آپ نے یہ کتنا شریر ہو گیا ہے-
بری بات (100 لفظوں کی کہانی) بری بات (100 لفظوں کی کہانی) Reviewed by Unknown on 8:57 AM Rating: 5

ہمارے بلاگ کا مقصد

8:45 AM
 السلامُ علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
آپ کے لئے خصوصی طور پر یہ بلاگ ترتیب دیا گیا ہے یہاں پر اپکو مطالعاتی اور دلچسپی کے حامل مضامین پڑھنے کو ملیں گے۔ ہمیں اپنی قیمتی آراء سے ضرور آگاہ کریں۔ والسلام
ہمارے بلاگ کا مقصد ہمارے بلاگ کا مقصد Reviewed by Unknown on 8:45 AM Rating: 5

تھوڑی سی ہنسی😂

7:37 AM
🌹😁 *ایک جملے کے لطائف* کبھی کبھی لگتا ہے کہ تمام پریشانیوں کی وجہ وہ "میسج" ہے جو دس لوگوں کو نہیں بھیج سکا۔ کھانےکے معاملے میں کچھ دوستوں کا منہ ہر وقت پستے کی طرح کھلا رہتا ہے اور جب کھلانے کی باری آئے تو اخروٹ بن جاتے ہیں ۔ آج کل روتے ہوئے بچے کو موبائل ایسے تھما دیا جاتا ہے جسے ایمرجنسی وارڈ میں مریض کو آکسیجن کی ضرورت ہو ایک سال سے پسند کی شادی کے لئے  جو وظیفہ پڑھ رہا تھا، آج کسی نے بتایا کہ وہ سعودی عرب کا قومی ترانہ ہے گاجر کا حلوہ بنانے کے لیے عورتیں مہنگے ڈرائی فروٹ کھویا وغیرہ سب خرید لیں گی لیکن گاجر جب تک دس روپیہ کلو نہ ہوجائے,تب تک حلوہ بنانے کا پروگرام پینڈینگ رکھتی ہیں. جو لوگ ملک بسکٹ چائے میں ڈبوکر ثابت نکال لیتے ہیں وہ لوگ دنیا میں کچھ بھی کرسکتے ہیں جو پیر، اتوار کے بعد آتا ہے اس کا کوئی مرید نہیں ہوتا ۔ ۔ ۔ ۔ آپ کے سینڈوچ سے کاکروچ کا برآمد ہونا کوئی مسئلہ نہیں لیکن آپ کے آدهے کهائے ہوئے سینڈوچ سے آدها کاکروچ کا برآمد ہونا مسئلہ ہو سکتا ہے ہر شخص کے اندر ایک ڈراؤنا انسان چھپا ہوتا ہے جو صرف شناختی کارڈ پر نظر آتا ہے۔ دنیا کی سب سے تیز رفتار ترین چیز اتوار کی چھٹی ہے، آناً فاناً گزر جاتی ہے!!! حیرت انگیز چیزوں کے بارے میں ایک حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ انہیں دیکھ کر نئی نسل کو بالکل حیرت نہیں ہوتی جتنا غور سے لوگ ٹکرانے کے بعد ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں اتنا غور سے اگر پہلے ہی دیکھ لیتے تو ٹکر ہی نہ ہوتی بیڈ ایک ایسی جادوئی جگہ ہے جس پر لیٹتے ہی دن بھر کے وہ تمام کام یاد آنے لگتے ہیں، جو انسان کرنا بھول گیا ہو۔ 📚
تھوڑی سی ہنسی😂 تھوڑی سی ہنسی😂 Reviewed by Unknown on 7:37 AM Rating: 5

شہد کی مدد سے بیماریوں کا علاج

5:37 AM
طانوی محققین کا کہنا ہے کہ ہسپتال میں داخل مریضوں میں شہد اور پانی مل کر پیشاب کے انفیکشن کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ ایسے مریضوں میں عام طور پر پیشاب کے اخراج کے لیے کیتھیٹر لگا ہوتا ہے، تاہم اس کی نالیوں میں کئی قسم کے جراثیم نشو و نما پا کر مریض میں انفیکشن پیدا کر سکتے ہیں۔ یونیورسٹی آف ساؤتھیمپٹن کے سائنس دانوں نے دکھایا ہے کہ پانی ملا پتلا شہد بعض جراثیم کو پلاسٹک اور اس قسم کی دوسری سطحوں پر چمٹنے سے روکتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کیتھیٹر جب تک مثانے میں ہے اس وقت تک پتلا شہد اسے صاف رکھ سکتا ہے۔ تاہم انسانوں میں اس کی افادیت جاننے کے لیے مزید تجربات کی ضرورت ہے۔ شہد صدیوں سے قدرتی جراثیم کش کے طور پر استعمال ہوتا چلا آیا ہے۔ لوگ اسے زخموں اور جلی ہوئی جلد پر لگا کر اس کا علاج کرتے رہے ہیں۔ کئی کمپنیاں ’میڈیکل گریڈ‘ شہد کی مصنوعات فروخت کرتی ہیں جو طبی اداروں کے معیار کے مطابق ہوتی ہیں۔ تجربہ گاہ میں ہونے والے تجربات سے معلوم ہوتا ہے کہ پیشاب کے زیادہ تر انفیکشن کا باعث دو جرثومے ہوتے ہیں، ای کولائی اور پروٹیئس میرابلس۔ شہد کو اگر 3.3 فیصد تک بھی پتلا کر دیا جائے تب بھی جراثیم کو آپس میں جڑنے اور سطحوں پر اکٹھا ہونے سے روک دیتا ہے
شہد کی مدد سے بیماریوں کا علاج شہد کی مدد سے بیماریوں کا علاج Reviewed by Unknown on 5:37 AM Rating: 5

چین کی خلائی مخلوق ڈھونڈنے کے لئے دورںین

5:09 AM
>خلائی مخلوق کی تلاش کیلیے چین نے دنیا کی سب بڑی ریڈیائی دوربین تیار کر لی بیجنگ: چین کی جانب سے بنائی گئی دنیا کی سب بڑی ریڈیائی دوربین خلائی مخلوق کی تلاش کے لیے اگلے ہفتے اپنی آنکھیں کھولے گی۔ اسے ’’فائیو ہنڈریڈ میٹر اپرچر سفیئریکل ٹیلی اسکوپ یا فاسٹ‘‘ کا نام دیا گیا ہے جو کائنات کے دور دراز گوشوں سے خلائی مخلوق اور دیگر اجسام کی سُن گن لے سکے گی۔ اس کے ذریعے بہت دور موجود سیارے اور ستاروں کو دیکھنے میں بھی مدد ملے گی۔ لیکن چینی ماہرین اس سے کائنات کے کسی گوشے میں موجود ایسی ذہین خلائی مخلوق دیکھنے کے خواہاں ہیں جو زمین کی جانب ریڈیو سگنل بھیج رہی ہو۔ اس موقع کو ماہرین نے ’پہلی روشنی‘ قرار دیا ہے جس کا مطلب ہے کہ دوربین سے پہلی مرتبہ کائنات کی تصویر لی جائے گی۔
اس سے پہلے پورٹو ریکو میں واقع ایک ریڈیائی دوربین کو اب تک دنیا کی سب سے بڑی دوربین کا اعزاز حاصل تھا لیکن اب 9 ہزار سے زائد چینی ماہرین اور انجینیئر نے دنیا کی سب سے بڑی دوربین بنائی ہے جو پورٹو ریکو دوربین سے دُگنی بڑی ہے۔ ڈش کی صورت میں اس کے اینٹینا کا گھیر 500 میٹر ہے جو اتنا طاقتور ہے کہ کائنات کی گہرائی میں واقع سیاروں، ستاروں اور دیگر اجرامِ فلکی اور ممکنہ طور پر ذہین مخلوق کو دیکھ سکے گا۔
روس نے بھی آر اے ٹی اے این 600 نامی ایک ریڈیائی دوربین بنائی ہے جس کی چورائی 576 میٹر ہے لیکن فاسٹ کی طرح یہ ایک واحد ڈش نہیں بلکہ کئی ٹکڑوں کو جوڑ کر تیار کی گئی ہے اور اس کا اندرونی رقبہ بھی چھوٹا ہے۔ فاسٹ دوربین پر 18 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی خطیر رقم خرچ کی گئی ہے اور 5 سال کی محنت کے بعد یہ تیار کی گئی ہے۔
  اس کا رخ بدلنے کے لیے آہنی رسیاں اور ہائیڈرالک مشینیں استعمال کی جائیں گی۔ اسے تعمیر کرنے کے لیے 400 ماہرین نے 10 سال تک چین میں مناسب جگہ کا انتخاب کیا لیکن آخرکار اسے گوئی زو صوبے میں بنایا گیا ہے کیونکہ اس یہاں موجود ایک وادی کی شکل پیالہ نما ہے اور یہاں دوسری ریڈیائی مداخلت بھی  کم کم ہے۔
چین کی خلائی مخلوق ڈھونڈنے کے لئے دورںین چین کی خلائی مخلوق ڈھونڈنے کے لئے دورںین Reviewed by Unknown on 5:09 AM Rating: 5

کفر پر غلبہ اسلام (انشاء اللہ)

5:00 AM
قرآن کریم میں کفر کے مغلوب ہونے اور اسلام کے غالب آنے کی بشارتیں باربار دی گئی ہیں مثلا سورہ فتح کے تیسرے رکوع کو پڑھ جائیے، وہاں اصحاب رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم) کو مخاطب کرتے ہوئے بےشمار فتوح اور غنائم کی لگاتار بشارتیں دی گئی ہیں، اور چوتھے رکوع میں اسلام کے دیگر ادیان باطلہ پر کامل غلبے کی بشارت موجود ہے اور اس غلبے کی خبر کی صداقت پر اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ اس سلسلے میں اللہ گواہ ہے اور اس کی گواہی کافی ہے۔ یہاں اسلام کا سیاسی اور عسکری غلبہ بھی یقینا مراد ہے ورنہ محض دلائل کی بنیاد پر حق کبھی مغلوب ہوتا ہی نہیں۔ قبل ازیں گزشتہ قسط میں ملا باقر مجلسی شیعی کا حیات القلوب سے غزوہ خندق کے سلسلے میں ایک اقتباس پیش کیا جا چکا ہے جس سے صاف واضح ہے کہ روم و ایران اور یمن وغیرہ کے علاقے مسلمانوں کے قبضے میں آنے والے تھے اور یہ سب کچھ خلفائے راشدین کے دور میں ہی ہوا۔ اسی لئے غلبے کے لئے قرآنی کلمات 'لیظھرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون' لائے گئے ہیں کیونکہ دلائل کی بنا پر حق و باطل میں امتیاز کرنا اور لوگوں پر اسے کماحقہ واضح کرنا اور دین کو بلا کم و کاست ظاہر کرکے لوگوں تک ٹھیک ٹھیک پہنچا دینا اور اسلام میں نئے داخل ہونے والوں کی صحیح رہنمائی کرنا تبھی ممکن تھا کہ اس دور کی دو جابر اور نہایت طاقتور قوتوں یعنی روم و ایران کی حکومتوں پر کاری ضرب لگائی جاتی جو لوگوں کی شخصی آزادیوں کو سلب کئے ہوئے تھیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور عجمی اقوام بھی اسلام کی نعمت اور برکات سے مالامال ہوئیں۔ اب اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے فورا بعد (معاذاللہ) ظالموں کو غلبہ حاصل ہوگیا تھا اور اہل حق مجبور و مغلوب ہوکر ( معاذاللہ) تقیہ اور کتمان کے پردے میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوگئے تھے اور خود اپنی حیات طیبہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خواہ کسی کے لئے بھی پروانہ خلافت لکھوانا چاہتے تھے اور آخری ایام میں حضرت اسامہ رض کی مہم روانہ فرمانا چاہتے تھے لیکن کچھ لوگوں نے آپ کو ایسا نہ کرنے دیا۔ امہات المومنین حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنھما ( معاذاللہ ثم معاذاللہ) منافقہ تھیں اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (معاذاللہ ثم معاذاللہ) زہر دے کر اس لئے شہید کر ڑالا تھا کہ بعد میں حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنھما یکے بعد دیگرے خلافت و امارت پر قابض ہوجائیں اور سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ جو مبینہ طور پر خلیفہ بلافصل تھے اپنے حق سے محروم اور مغلوب ہوکر رہ جائیں اور بقول روافض اسداللہ الغالب ہونیکے باوجود تقیہ و کتمان کے پردے میں انتہائی لاچاری، عاجزی اور بےبسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوجائیں اور بقول روافض ایسا ہی ہوا ، تو کون عقلمند اسلام کو غالب قرار دے گا؟؟ ثابت ہوا کہ قرآنی بشارات ہی سچی ہیں اور ان کے برعکس تمام خودساختہ مفروضات جھوٹے اور غلط ہیں۔ سبھی خلفائے راشدین حق پر ہیں۔ وہ سب باہم شیروشکر تھے اور انہی کے ذریعہ اسلام دیگر ادیان باطلہ پر غالب آیا۔
 جب ابلیس لعین کسی کو اللہ اور اس کے رسول کے مقابلے اور معارضے میں لے آئے تو دینی امور میں ایسے لوگوں کی عقل ماوءوف ہوجایاکرتی ہے۔ یہاں چند نہایت ہی اہم سوالات پیدا ہوتے ہیں، جن کے جوابات تلاش کرنے چاہئیں۔
۱- ہمارے امامیہ بھائیوں کے گھروں میں موجود خواتین مومنات ہیں یا منافقات؟  اگر مومنات ہیں اور اللہ تعالی کی محبوب ترین ہستی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ( معاذاللہ ثم معاذاللہ) منافقات تھیں تو کیا اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت ترین توہین لازم نہیں آتی؟؟ یہاں حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کی بیویوں کا حوالہ قطعا غیر متعلق ہے ۔ سابقہ بعض شرائع کے برعکس شریعت محمدیہ میں عام مسلمانوں کے لئے بھی مشرکین اور منافقین سےنکاح حرام ہے چہ جائیکہ خاتم النبین ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے گھر میں کوئی منافقہ یا مشرکہ عورت ہو۔ منافق بھی کافر ہوتا ہے جو اپنے کفر کو چھپاتا ہے۔
۲۲- قرآن کریم میں دو مرتبہ تاکیدی حکم ہے کہ " اے نبی ! تو کافروں اور منافقوں کے خلاف جہاد کر اور ان پر سختی بھی کر اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ برا ٹھکانا ہے"( التوبہ۷۳-التحریم ۹) اب اگر اللہ کا رسول منافقوں سے اپنی مرضی اور اپنے اختیار سے رشتے ناطے قائم کرے ، ان کی لڑکیوں کو اپنی بیویاں بنا کر امہات المومنین کے نہایت بلند منصب پر فائز کرے ، اپنی بیٹیاں ( معاذاللہ) منافقین کے حوالے کرے مثلا آپ کی دو بیٹیاں حضرت عثمان رض کے نکاح میں یکے بعد دیگرے آئیں توکیا اسے منافقین پر سختی کہا جائے گا ؟؟
۳۳- اگرکہا جائے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر میں آپ کی نسبی نہیں بلکہ لےپالک بیٹیاں تھیں تو آج کے گئے گزرے دور میں بھی کوئی شخص اپنی نسبی بیٹی کے لئے تو بہترین رشتہ تلاش کرے اور لےپالک بچیوں کو منافقین یا فساق و فجار کے نکاح میں دے دے تو اسے سخت بدبخت ، انتہائی سنگدل اور پرلے درجے کا ظالم سمجھاجائیگا۔ تو کیا رحمتہ للعلمین کی طرف ایسے ظالمانہ فعل کو منسوب کرنے والا خبیث ترین شخص شمار نہیں ہوگا جو آپ کی اس سنگین توہین کی شرمناک جسارت کرے ؟؟
۴۴- اگر آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) کو ان کے مبینہ نفاق کا علم نہیں تھا تو بعد کے ادوار کے نام نہاد مومنین ( روافض) کو کس شیطانی وحی سے اس کا علم ہوا؟؟ اگر آپ کو علم نہیں تھا تو اللہ تعالی (معاذاللہ) کیوں خاموش رہا؟؟ نیز روافض
کے نزدیک تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب بھی ہیں توکیا اللہ اور اس کے رسول نے منافقین پر سختی اسی طرح فرمائی تھی ؟؟
۵-  جب آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے ( روافض کے عقیدے کے مطابق) عالم الغیب اور مختارکل ہونے کے باوجود بیویوں کے ہاتھوں غٹاغٹ زہر پی لیا تو کیا خودکشی آپ کے لئے جائز تھی؟؟ اگر زبردستی پلایا گیا تو آپ مختارکل کیسے ہوئے ؟؟ نیز قرآن میں ہے کتب اللہ لاغلبن انا ورسلی ( المجادلہ ۲۱)۔" یعنی اللہ نے یہ پکا فیصلہ فرمادیا ہے کہ میں اور میرے رسول ( صاحب شریعت نبی) ضرور بالضرور غالب رہیں گے۔" تو یہ کیسا غلبہ ہے کہ آپ نے عالم الغیب اور مختارکل ہوتے ہوئے زہر نوش فرما لیا ؟؟
 یہاں رضا بالقضاء ( تقدیر پر راضی ہونے) کا عذرلنگ قطعا غلط اور غیر متعلق ہے ۔ اگر حضرت عائشہ و حفصہ (رضی اللہ عنھما) معاذاللہ واقعی منافقہ تھیں تو دیدہ و دانستہ کسی منافق کے خبیث قاتلانہ عزائم کو پورا ہونے دینا اور موت کو گلے لگا لینا تو شریعت کی بدترین خلاف ورزی اور خودکشی ہے۔ اس سے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ( معاذاللہ) ظالموں کی دیدہ و دانستہ مجرمانہ اعانت اور خودکشی کا سنگین الزام عائد ہوتا ہے۔ یہ روافض کیسے نام نہاد مومنین ہیں جو نہ تو اپنی ماوں (امہات المومنین ) کی سخت توہین سے اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معاذاللہ تحقیر و تذلیل سے باز آتے ہیں ؟؟ قل بئسما یامرکم به ایمانکم ان کنتم مومنین۔
جو شخص بھی خلاف شریعت کام کرے تو وہ اس کی تقدیر میں لکھاہوتا ہے تبھی تو وہ یہ کام کرتا ہے۔ کوئی چور چوری کرے تو یہ اس کی قسمت میں لکھی ہوتی ہے۔ اب اگر وہ مثلا عدالت میں اپنی صفائی یوں بیان کرے کہ میں نے چوری اس لئے کی ہے کہ یہ میری تقدیر میں لکھی ہوئی تھی اور میں لوگوں پر یہ ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ میں رضا بالقضاء کا قائل ہوں اور تقدیر پر راضی ہونا تو شریعت میں عین مطلوب و مقصود ہے لہذا مجھے باعزت بری کیا جائے۔ اگر کسی چور کا دنیوی عدالت میں اپنی مدافعت میں اس طرح کا مضحکہ خیز بیان اس کے جرم کو مزید موکد و پختہ کرے گا ، تو کوئی خلاف شریعت افعال کو حضرات انبیاء علیھم السلام، صحابہ کرام، ائمہ عظام اور اولیاء و صلحاء کی طرف منسوب کرکے یہ کہےکہ وہ ان خلاف شریعت کاموں سے اپنی رضا بالقضاء کا اظہار فرمایا کرتے تھے اور اپنی اس بہتان تراشی سے وہ رب العالمین کی عدالت میں سرخروئی کی امید لگائے بیٹھا ہو تو اس سے بڑا احمق کون ہوسکتا ہے ؟؟ رضا بالقضاء کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ غیراختیاری مصائب و شدائد پر انسان صبر کرے اور یہ سمجھے کہ میری تقدیر میں یہی تھا اور چونکہ میں اپنی اس تقدیر پر اللہ تعالی سے راضی ہوں اور تکالیف پر صبر کر رہا ہوں ، لہذا وہ مجھے بہترین اجر سے نوازے گا۔ اس کے برعکس رضا بالقضاء کی آڑ میں اللہ کے نیک بندوں کی طرف خلاف شریعت کام منسوب کرنا تو صریح بہتان اور ظلم پر ظلم ہے۔
ے)
کفر پر غلبہ اسلام (انشاء اللہ) کفر پر غلبہ اسلام (انشاء اللہ) Reviewed by Unknown on 5:00 AM Rating: 5

اسرائیل ، فلسطین اور امریکہ کی مداخلت

4:58 AM
امریکہ نے اسرائیل میں اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا فیصلہ تو کر لیا لیکن سوال یہ ہے کہ جب بین الاقومی قوانین کے تحت یروشلم اسرائیل کا شہر ہی نہیں ہے تو سفارت خانہ وہاں منتقل کیسے ہو سکتا ہے؟یہ سوال بہت ہی اہم ہے۔چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ جو ممالک اسرائیل کے ناجائز وجود کو بطور ریاست تسلیم کر چکے ہیں وہ بھی اس اقدام کی حمایت نہیں کر پا رہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس اقدام کی کوئی توجیح پیش نہیں کی جا سکتی۔
اسرائیل کے ناجائز قیام کی بحث کو ایک طرف رکھ دیجیے اور اسی بیانیے میں معاملے کو دیکھ لیجیے جس بیانیے میں اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا۔برطانیہ اور اقوام متحدہ کی سرپرستی میں جب اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا تو یہ بات طے کر دی گئی کہ یروشلم کا شہر اسرائیل کاحصہ نہیں ہو گا۔
29 نومبر 1947 کواقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداد نمبر 181 کے تحت یہ قرار دیا کہ یروشلم کی حیثیت "Corpus Separatum" کی ہو گی۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ شہر اب کسی ایک ریاست کا حصہ نہیں ۔اس کی الگ اور جداگانہ حیثیت ہے۔ اقوام متحدہ نے کہا کہ چونکہ اس شہر کی مذہبی حیثیت ایسی ہے کہ یہ تینوں مذاہب کے لیے محترم ہے اسے لیے اس علاقے میں اسرائیل اور فلسطین نام سے دو ریاستیں تو وجود میں آ رہی ہیں لیکن یروشلم کا شہر "Corpus Separatum" ہو گا اورا س کا انتظام اقوام متحدہ چلائے گی۔ یہی بات جنرل اسمبلی نے گیارہ ستمبر 1948 کی اپنی قرارداد نمبر194 میں کہی اور اسی بات کا اعادہ فلسطین پر اقوام متحدہ کے کمیشن (UNCCP) نے1949 میں سوئٹزرلینڈ کے شہر لاؤزین میں اس کانفرنس میں کیا جو 27 اپریل سے 12ستمبر تک جاری رہی۔
اسرائیل نے 1949 میں مصر، اردن ، شام اور لبنان سے معاہدے کیے جنہیں "Armistice Agreement" یعنی صلح کے معاہدے کہا جاتا ہے، ان میں بھی یروشلم شہر کی یہ حیثیت برقرار رکھی گئی۔چنانچہ ایک انتظام کے تحت مشرقی یروشلم اردن کے پاس چلا گیا۔یاد رہے کہ مسجد اقصی ، قبۃ الصخرا، مغربی دیوار ،اور چرچ آف دی ہولی سپیلکر یعنی کنیسہ القیامہ اسی مشرقی یروشلم میں واقع ہیں۔1967تک یہ مقامات مسلمانوں کے پاس رہے اور اردن ہی ان کے انتظامی معاملات کو یکھتا رہا۔
1967کی جنگ میں اسرائیل نے مشرقی یروشلم پر قبضہ کر لیا لیکن دنیا نے اس قبضے کو آج تک تسلیم نہیں کیا۔ اقوام متحدہ کے مطابق مشرقی یروشلم ’’مقبوضہ فلسطین ‘‘ ہے اور اسے اسرائیل نہیں کہا جا سکتا۔سلامتی کونسل نے 22نومبر 1967 کو قرارداد نمبر 242 کے ذریعے اسرائیل کے قبضے کو ناجائز قرار دیا اور اسے مشرقی یروشلم سے نکل جانے کوکہا۔ اس قرارداد کو امریکہ سمیت 15ممالک کے ووٹ ملے، نہ کوئی ملک غیر حاضر رہا نہ کسی نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 4جولائی 1967 کو قرارداد نمبر2253 کے ذریعے اسرائیلی قبضے کو غیر قانونی اور ناجائز قرار دیا۔اس میں کہا گیا کہ اسرائیل ہر ایسے اقدام سے باز رہے جو یروشلم شہر کی طے شدہ حیثیت کو تبدیل کر تا ہو۔99ممالک نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا اور کسی ایک ملک نے بھی اس کی مخالفت نہیں کی۔
تیرہ سال اسی طرح گزر گئے۔1980 میں اسرائیل نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پامال کرتے ہوئے اعلان کر دیا کہ یروشلم اس کا دارالحکومت ہو گا۔اسرائیل نے دنیا سے کہا کہ وہ اپنے سفارت خانے یروشلم منتقل کرے۔اس قدم سے اسلامی دنیا میں بھونچال آ گیا اور او آئی سی نے کہا کہ جو ملک اپنا سفارت خانہ یروشلم لے گیا تمام اسلامی ممالک سے اس کے سفارت خانے بند اور سفارتی تعلقات منقطع کر دیے جائیں گے۔اس دوران اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پہلے 30 جون کو قرارداد نمبر 476 اور پھر 20 اگست 1980کو قرارداد نمبر 478 پاس کی اور اسرائیل کے اس قدم کو انٹر نیشنل لاء کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے تمام ممالک سے کہا کہ اقوام متحدہ کے فیصلے کو مانیں اور کوئی ملک بھی اپنا سفارت خانہ یروشلم نہیں لے جائے گا۔اس قرارداد کے حق میں 14 ووٹ آئے جب کہ کسی ایک ملک نے بھی مخالفت نہیں کی۔امریکہ البتہ غیر حاضر رہا۔چنانچہ اس قرارداد کے فورا بعدبولیویا،چلی، کولمبیا، کوسٹا ریکا، پانامہ، یوروگوائے ، وینزیویلا، ایکواڈور ، سالوادور جیسے ممالک نے جو اپنے سفارت خانے یروشلم منتقل کر چکے تھے واپس تل ابیب لے کر آ گئے۔حتی کہ امریکہ کو بھی یہ ہمت نہ ہو سکی کہ وہ اپنا سفارت خانہ یروشلم لے جائے۔دسمبر 1980میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اسرائیل کے اس اقدام کو غیر قانونی قرار دیا اور کہا کہ اسرائیل چوتھے جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔وہ اس سے باز رہے۔
یروشلم کے بارے میں اقوام متحدہ واضح طور پر طے کر چکی ہے کہ یہ اسرائیل کاحصہ نہیں ہے۔جنرل اسمبلی کی چار جولائی 1967 اور چودہ جولائی کی قراردادوں کے علاوہ سلامتی کونسل کی 1968کی قرارداد نمبر252میں بھی اسرائیل سے یہی کہا گیا ہے کہ وہ ناجائز اور غیر قانونی اقدامات کر کے یروشلم شہر کی حیثیت بدل رہا ہے اس سے وہ اجتناب کرے۔
1990میں اسرائیلی کی جانب سے جب مسجد اقصی میں مسلمانوں پر تشدد ہوا تو سلامتی کونسل نے 12اکتوبر کو قرارداد نمبر 672کے ذریعے اسرائیل کو بین الاقوامی قوانین کی پامالی کا مرتکب ٹھہرایا اور کہا کہ یروشلم اسرائیل کا حصہ نہیں ہے بلکہ یہ فلسطین کا علاقہ ہے جو اس وقت مقبوضہ حیثیت میں اسرائیل کے ناجائز قبضے میں ہے۔ اس قرار داد میں اسرائیل سے کہا گیا کہ وہ اس مقبوضہ علاقے میں ان ذمہ داریوں کو ادا کرے جو اقوام متحدہ کے قوانین کے تحت مقبوضہ علاقوں کی بابت طے کر دی گئی ہیں۔
یروشلم کی حیثیت کے تعین کے لیے یہ معاملہ 2004میں بین الاقوامی عدالت انصاف کے پاس بھی پیش کیا گیا تا کہ اس سے ’’ ایڈ وائزری اوپینین‘‘ لیا جا سکے۔بین الاقوامی عدالت انصاف نے کہا کہ یروشلم اسرائیل کا حصہ نہیں ہے بلکہ اسے مقبوضہ فلسطین کہا جائے گا۔کہا گیا کہ اسرائیل یہاں دیوار تعمیر نہیں کر سکتا کیونکہ یہ علاقہ اس کا نہیں ہے بلکہ مقبوضہ ہے ۔ یہ کام بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔عدالت نے تو یہ بھی کہا کہ جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل اس ضمن میں مزید اقدامات کریں۔عالمی عدالت انصاف جس مقبوضہ علاقے میں ایک دیوار تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دے رہی آج امریکہ وہاں پورا سفارت خانہ لے جانا چاہتا ہے۔یہاں ا س غلط فہمی کو بھی دور کر لیا جائے کہ یہ محض ٹرمپ کا فیصلہ ہے۔یاد رہے کہ امریکہ تو 1995ہی میں یروشلم ایمبیسی ایکٹ متعارف کرا چکا ہے۔خواب پرانا ہے ،اس خواب کو تعبیر البتہ ڈونلڈ ٹرمپ دے رہے ہیں۔
اس وقت یروشلم کے معتبر ترین مسیحی رہنما ، گریک آرتھوڈوکس چرچ کے ثیو فیلوس الثالث اور درجن بھر دیگر مسیحی عمائدین نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک احتجاجی خط لکھا ہے جس میں انہیں وارننگ دی ہے کہ سفارت خانہ یروشلم منتقل کر کے آپ ناقانل تلافی نقصان اٹھائیں گے ، اور آپ کے اس اقدام سے یہاں نفرت ، تشدد میں اضافہ ہو گا اور امن اور اتحاد سے ہم مزید دور ہو جائیں گے۔
معاملہ کا قانونی پہلواب آپ کے سامنے ہے۔ امریکہ کے اس اقدام کی حمایت کرنے کے لیے دو میں سے ایک خوبی کا ہونا ضروری ہے۔اول: آدمی جاہل ہو۔ دوم: وہ بد دیانت ہو۔تیسری صورت صرف یہ ہو سکتی ہے کہ اس میں یہ دونوں خوبیاں جمع ہو جائیں۔
تحریر آصف محمود
اسرائیل ، فلسطین اور امریکہ کی مداخلت اسرائیل ، فلسطین اور امریکہ کی مداخلت Reviewed by Unknown on 4:58 AM Rating: 5

اسوہ حسنہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم

4:34 AM
ڈاکٹر(مفتی) محمد شمیم اختر قاسمی*

نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کی زندگی کے آخری ۲۳/سال جس میں آپ صلى الله عليه وسلم نے کار نبوت انجام دیا،اس میں بھی بالخصوص مکی زندگی بڑی صبر آزما اور تکلیفوں سے بھری ہوئی ہے۔اس عرصے میں ایک پر ایک مشکلیں اور پریشانیاں سامنے آئیں،جن کا آپ صلى الله عليه وسلم نے خندہ پیشانی اور حکمت سے مقابلہ کیا۔چوں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ صلى الله عليه وسلم کو اپنا آخری نبی منتخب کیا تھا اورپوری دنیا کے لیے اسوہ ونمونہ بنایا تھا۔اس لیے آزمائشیں بھی آپ صلى الله عليه وسلم کی زندگی کا جز بن گئی تھیں۔کار نبوت انجام دیتے ہوئے جتنے کٹھن مراحل سے آپ صلى الله عليه وسلم کو گزرنا پڑا ،اتنا انبیائے سابقین میں سے کسی کے بھی حصہ میں نہ آیا۔اس لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ صلى الله عليه وسلم کے مقام ومرتبہ کو تما م انبیا سے بلند کردیا: ورفعنا لک ذکرک اور اسی وجہ سے آپ صلى الله عليه وسلم کو” رحمة للعالمین“ کے خطاب سے بھی نوازا۔
نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے اپنی وفات سے ۲۲/سال قبل کار نبوت کا آغاز ’کوہ صفا‘ سے کیاتھا۔ آپ صلى الله عليه وسلم کی خدا لگی باتیں اہل مکہ کے کانوں تک پہنچیں تو وہ آپ کے مخالف اور جان کے دشمن بن گیے۔پھر بھی آپ نے اپنے فرائض کو انجام دینے میں کسی طرح کی کوئی کمی نہ کی۔مخالفت کی انتہا ہوگئی تو باد ل نخواستہ آپ کواپنے اصحاب کے ساتھ مدینہ ہجرت کرناپڑا۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ جس کام کا آغاز آپ نے مکہ کے کوہ صفا سے کیاتھا اور شدید مجبوری کی بنا پر اللہ کے حکم سے نقل مکانی کیاتھا، اس کی تکمیل بھی وہیںآ کر ہوئی اور ٹھیک اسی مقام پر ہوئی ،جسے میدان عرفات کہا جاتا ہے۔یہیں آپ صلى الله عليه وسلم نے اپنا تاریخ ساز خطبہ دیا ،جسے ”حجة الوداع “ کہا جاتا ہے۔اس خطبہ کے بعد قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیت نازل ہوئی جس میں تکمیل دین کی صراحت کی گئی ہے:
”الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الإِسْلاَم دیناً(المائدہ:۳)
(آج ہم نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کردیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی اور تمہارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے۔)
۲۳/سال کی مدت میں قرآن کریم نازل ہوا۔اس میں ان تمام احکام کو بیان کردیا جن سے انسانیت ہدایت و رہنمائی حاصل کرسکتی اور نشان راہ متعین کرسکتی ہے۔اس میں ان چیزوں کی بھی نشان دہی کردی گئی ہے جن سے دنیا میں عروج وزوال اور انقلاب برپا ہوگا ۔ گویا کہ یہ پورا عرصہ احکام خداوندی کے نزول کا تفصیلی زمانہ ہے۔اس میں اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کا عمل یہ رہا کہ جو کچھ خدا کی طرف سے نازل ہوتا پہلے خود اس پر عمل کرتے پھر اسے اس کے بندوں تک جوں کا توں پہنچادیتے۔
احکام خداوندی کا نزول حسب ضرورت گاہے گاہے ہوتا رہا ہے۔فتح مکہ کے بعد قریب قریب کار نبوت کی تکمیل بھی ہوگئی تھی۔اس کے بعد۱۰ھ میں آپ صلى الله عليه وسلم صحابہ کرام کی ایک بڑی جماعت کے ساتھ حج ادا کیااور آپ صلى الله عليه وسلم نے انسانی حقوق کے تحفظ کا عالمی وابدی خطبہ دیا جس میں پوری ۲۳/سالہ تعلیمات الٰہی کا خلاصہ آگیا ہے۔آپ صلى الله عليه وسلم نے جس عہد ،ماحول اور حالات میں خطبہ دیا وہ آج کے عہد سے بالکل مختلف تھا۔امتداد زمانہ کے ساتھ اس کی اہمیت وافادیت میں اضافہ ہی ہوتا جاتا ہے اور معنویت بڑھتی جارہی ہے۔اس وقت دنیا کی جو حالت تھی اس کا اندازہ مندرجہ ذیل اقتباس سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے:
”آج سے ۱۴/سوبرس پہلے جب کہ پیغمبر انسانیت نے اپنا خطبہ انقلاب ارشاد فرمایا تھا،اس وقت کی آباد دنیا بہرحال آج کل کی طرح وسیع نہ تھی۔امریکہ کے دونوں براعظم ہنوز گوشہٴ گمنامی میں تھے۔ آسٹریلیا دریافت نہ ہواتھا،افریقہ کے بڑے حصے پر آفتاب تمدن کی روشنی نہ پہنچ سکی تھی،ایشیا و یورپ کے انتہائی شمالی علاقے اجاڑ اور غیر آباد تھے۔ہاں البتہ عرب ،چین،ہندوستان، ایران،عراق، شام، مصر،مغرب اقصیٰ ،حبشہ،یونان، اطالیہ، فرانس، اسپین،جنوبی روس، بحیرہٴ بالٹک کا مشرقی اورجنوبی حصہ جٹ لینڈ، اسکینڈے نیویااور برطانیہ وغیرہ میں اگرچہ تہذیب وتمدن کی روشنی موجود تھی،مگر کہیں تیز کہیں مدھم۔یعنی یہ ظاہر ہے کہ ہرجگہ نہ تہذیبی ترقی یکساں ہوئی تھی نہ سیاست،مذہب،اور اخلاق ومعاشرت کا حال ایک جیسا تھا۔“۱
اختلاف روایت کے باوجود ایک لاکھ سے زائد افراد نے اس خطبے کو سنا۔اس اجتماع میں نہ صرف انتہائی اجڑ قسم کے دیہاتی وبدوی موجود تھے ۔بلکہ وہ لوگ بھی تھے جو عرب کے انتہائی اعلیٰ واشرف شمار کیے جاتے تھے اور جو خود اپنے قبیلے یاخاندان کے سربراہ وسردار تھے۔اس میں وہ لوگ بھی تھے جو علم وتقویٰ میں بڑی بلندی پر فائز تھے اور در ِرسول کے ساختہ ،پرداختہ اور تربیت یافتہ تھے۔اختتام خطبہ پر پورے مجمع نے بیک آواز وزبان کہا بے شک آپ صلى الله عليه وسلم نے اللہ کے احکام کو ہم تک پہنچادیا اور اسے ہم دوسروں تک پہنچائیں گے۔ اس اقرار کا عملی نمونہ بھی آپ کے اصحاب نے آپ کی زندگی میں اور آپ کے دنیا سے رحلت کرجانے بعد پیش کیا،جس کی وجہ سے اسلام مختصر مدت میں دنیا کے انتہائی دوردراز خطوں میں پہنچ گیا،جس کی ایک جھلک مندرجہ ذیل اقتباس میں دیکھی جاسکتی ہے۔قاضی اطہر مبارک پوری لکھتے ہیں:
”دوسری صدی ہجری کے آخر ہی میں اسلام مغرب میں اندلس تک اور مشرق میں ہندوستان اور سندھ تک پہنچ چکا تھا۔ ایشیا، افریقہ اور یورپ تینوں برّ اعظموں پر اس کا سایہ پڑ رہا تھا اور ان کے شہروں سے لے کر میدانوں تک میں یقین وعمل کی بیداری پیدا ہورہی تھی، مجاہدینِ اسلام اپنے جھنڈوں کے سایہ میں آگے بڑھ رہے تھے، ان کے پیچھے علمائے اسلام کتاب وسنت اور اپنی علوم کی بساط بچھاتے جاتے تھے اور عوام اسلام کے زیر سایہ امن وامان کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ ہر طرف اسلامی قدریں ابھر رہی تھیں، شہروں اور آبادیوں میں اسلامی تہذیب وثقافت کا چرچا ہورہا تھا۔ عباد و زہاد کا مشغلہ زہد و تقویٰ،علماء ومحدثین کا حلقہٴ درس،امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا زور، کفرو شرک کے اندھیروں میں توحید ورسالت کی روشنی اور مشرق سے لے کر مغرب تک ایک نئی قوم کا وجود، یہ تمام باتیں پوری دنیا کو اقبال مندی کا مژدہ سنا رہی تھیں اور اس نئے دور میں مسلمانوں کی دینی، علمی، فکری، ایمانی اور اسلامی قدریں پورے التزام ونشاط کے ساتھ ابھر رہی تھیں ،مغرب اقصی اور اندلس سے لے کر خطا اور سندھ تک امت واحدہ کی تشکیل ہورہی تھی ،سندھ سے گزر کے ہندوستان کے بہت سے علاقے پہلی صدی ہجری کے آخر تک اسلام کے زیر نگیں آچکے تھے۔بنی امیہ کے حکام وعمال اور ان کے بعد بنو عباسیہ کے حکمراں سندھ پر قابض ودخیل تھے اور یہ علاقہ اسلامی خلافت کے ماتحت عالم اسلام کا ایک قانونی حصہ قرار پاچکا تھا۔“ ۲
اس ابدی منشور (خطبہ حجة الوداع) کے نافذ ہوتے ہی قوموں وملکوں کی حالت بدل گئی۔تہذیب وتمدن نے نئے جلوے دیکھے اور ذہن وفکر کو نئی روشنی ملی۔لیکن تاریخ اسلامی کے طویل عرصہ کے بعد حالات نے رخ بدلا،لوگوں کے اندردولت کی بے جا محبت اور خود غرضی آئی اور باطل حکومتوں کا وجود عمل میں آیا تو اس الٰہی ونبوی منشور جس میں نہ صرف حقوق انسانی کا احترام ملحوظ ہے بلکہ سیاست ومعاملات اور عبادات کے معیار کوبھی متعین وواضح کیا گیا ہے کی خلاف ورزی کی گئی اور طرح طرح کے اعتراضات کیے گیے۔ عوام کی توجہ اپنی طرف مرکوز کرنے کے لیے مختلف ملکوں نے اپنے اپنے مفاد کے تحت متعدد منشور تیار کیے اور اس میں حقوق انسانی کا جس انداز میں استحصال کیا ہے وہ سب پر عیاں ہیں،بلکہ ان نکات میں جومثبت باتیں شامل ہیں ان پر بھی عمل کم ہی کیا جاتا ہے۔آخر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ۱۰/دسمبر ۱۹۴۸/میں حقوق انسانی کا چارٹر تیار کیا جسے دنیا کا بہترین عالمی منشور قرار دیا وہ بھی عیوب ونقائص اور خود غرضیوں سے خالی نہیں ہے،چہ جائے کہ اس کے قبول کرنے اور نہ کرنے کے سلسلہ میں بظاہر اس کی رائے مختلف ہے۔اس منشور کے متعلق ایک دانش ور نے جوتبصرہ کیا ہے، وہ قابل ملاحظہ ہے:
”اس نقطہ کی اہمیت ومعنویت ان لوگوں کے ذہنوں میں زیادہ اجاگر ہوسکے گی جو یہ جانتے ہیں کہ عصر حاضر کی وہ دستاویز جو حقوق انسانی کی نقیب سمجھی جاتی ہے اور جسے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ۱۰/دسمبر ۱۹۴۸/کو منظور کیا تھا ،تجویز وسفارش سے زیادہ اہمیت نہیں تھی اور کسی مملکت کے لیے (Universal Declaration of Human Rights) کا تسلیم کرنا لازمی ولابدی نہیں ہے۔ایک مصنف کے بقول:یہ منشور تحفظ حقوق انسانی کے معاملے میں بالکل ناکارہ اور ناقابل اعتماد دستاویز ہے اس منشور کی حیثیت سراسر اخلاقی ہے۔ قانونی نقطئہ نظر سے اس کا کوئی وزن ومقام نہیں ہے۔اس منشور کی رو سے جو معاشی اور سماجی حقوق منظو کیے گیے ہیں وہ ایک بالغ نظر مبصرکے مطابق، اس کے تسلیم شدہ مفہوم کی رو سے حقوق ہی نہیں ہیں۔ یہ تو سماجی اور معاشی پالیسیوں کے محض اصول ہیں۔بلکہ کمیشن برائے انسانی حقوق میں ۱۹۴۷/ کو طے کیے جانے والے اصول کی روشنی میں گویا منشور کے اعلان سے ایک سال قبل ہی یہ طے ہوگیا کہ اس کی کوئی قانونی حیثیت نہ ہوگی،کوئی ملک چاہے تو اس منشور پر از خود رضا کارانہ طورپر عمل درآمد کرسکتا ہے اور چاہے تو ردی کی ٹوکری میں پھینک سکتا ہے۔“۳
قرآن کریم کی تعلیمات اور حضور صلى الله عليه وسلم کے اقوال وافعال اس بات پرعادل وشاہد ہیں کہ اسلام میں جبرو اکراہ کی گنجائش نہیں ۔دین کے معاملے میں ہر کوئی آزاد ہے۔ اس میں جو کچھ بھی بیان ہواہے وہ پوری انسانیت کے لیے ہدایت ورحمت ہے۔اس طغیانی دور میں بھی جو کوئی اس پر عمل کرے گا بلکہ عمل کرنے کی شدید ضرورت ہے تو عزت وبلندی کا مقام حاصل کرے گااور کبھی بھی کسی کے سامنے اور کہیں بھی ذلیل ورسوا نہ ہوگا۔آپ صلى الله عليه وسلم نے اپنے اول اور آخری حج میں جو خطبہ دیا وہ احکام الٰہی کا خلاصہ اور نچوڑ ہے ،جو پوری انسانیت کی فطرت اور ضرورت کے عین مطابق ہے۔
یوں تو پورا قرآن ہی انسانیت کے لیے ہدایت ورحمت اور شفاہے،جسے اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم لوگوں تک پہنچاتے اور احکام الٰہی سے متعارف کراتے رہے۔اس میں نہ صرف انسانیت کے مقصد تخلیق کو واضح کیا گیا ہے بلکہ اس کے ساتھ نماز،روزہ،زکوٰة،حج کی ادائیگی کے مطالبہ کے ساتھ توحید کے اقرار کو لازم قراردیا گیا ہے،جس کے بغیر کوئی مومن ہی نہیں ہوسکتا۔اس میں سماجی ومعاشرتی احکام بھی ملتے ہیں تو روزوشب گزارنے کا پیمانہ بھی متعین کیا گیا ہے۔جائز وناجائز اور حلال وحرام کی تمیز کرائی گئی ہے تومعاملات کو بھی اس میں متعین کیا گیا ہے۔اگر جنگ وجدال کا حکم ناگزیر صورت میں دیا گیا ہے تو اس کے ساتھ مومن کی اچھی صفت یہ بیان کردی گئی ہے کہ وہ معاف کرنے والاہو۔شوہر اوربیوی کے حقوق وتعلقات کو ظاہر کیا گیا ہے تو ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاوٴ کرنے کو حصول درجات کا ذریعہ بتایا گیاہے۔اگر اولاد کو اور مال کو فتنہ کہاہے تو اسے عزیز نعمت قرار دینے میں قرآن پیچھے نہیں ہے۔وقت اور حالت کے تحت دونوں کے مقا م ومرتبہ کا لحاظ کیا گیا ہے۔ اعزاء و اقارب اور پڑوسیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کی تعلیم ملتی ہے تواس میں اللہ کی دوسری مخلوق پر بھی رحم وکرم کرنے پر زور دیا گیا ہے۔اگر اس میں تعلیم وتعلم کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے تو تقویٰ کو شعار بنانے پر بھی زور دیا گیا ہے۔اگر اس کا تعلق ایام سابقہ سے ہے تو عہد حاضر کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا ہے اور آئندہ رونما ہونے والے واقعات کی بھی اس میں نشان دہی کی گئی ہے۔گویا کہ پورا قرآن سراپا ہدایت اور معلومات کا ایسا خزانہ ہے جس کے مثل کوئی کتاب ہوہی نہیں سکتی۔اسی قرآنی ہدایت کی تعلیمات کو اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے اپنے خطبہ میں اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے۔جس کی طرف توجہ مرکوز کرنے کی شدید ضرورت ہے۔
فتح مکہ کے ساتھ اسلام پورے خطہ عرب میں قریب قریب پہنچ گیا تھا۔اسے یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کے اس کام کی تکمیل ہوگئی تھی جس کے لیے اللہ نے آپ کو آخری نبی بناکر بھیجا تھا۔کیوں کہ یہیں اسلام کا وہ عظیم مرکز تھا جہاں لوگ پہنچ کر ادائیگیٴ حج کرتے تھے۔ اہل اسلام کو مدینہ پہنچنے کے بعد مکہ آنے کا موقع نہ ملا کہ ادائیگیٴ حج کی سعادت حاصل کریں،اس لیے وہ بے چین ومضطرب رہتے تھے۔صلح حدیبیہ کا واقعہ اسی پس منظر میں رونما ہوا تھا۔پھر کفار مکہ کی طرف سے اس صلح کی خلاف ورزی ہوتے ہی آپ صلى الله عليه وسلم نے مکہ پر چڑھائی کردی اور اسے فتح کرلیاجو ۸ھء کا واقعہ ہے۔فتح مکہ کے بعد آپ صلى الله عليه وسلم مدینہ چلے آئے۔اگلے سال مسلمانوں کی بڑی جماعت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی قیادت میں فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے مکہ گئی اور آپ صلى الله عليه وسلم مدینہ ہی میں رہے۔بعض سیرت نگاروں کے مطابق اس وقت تک ارکان حج کی تکمیل نہ ہوئی تھی اور اس کے احکام کا نزول مکمل نہ ہواتھا۔مگر جب اس کا نزول ہوگیا تو آپ صلى الله عليه وسلم حج کرنے کے لیے عازم سفر ہوئے ۔نبوت کے بعد آپ صلى الله عليه وسلمنے اپنا پہلا اور آخری حج اسی سال یعنی ۱۰ھ میں ادا کیا۔ اس کے لیے آپ اپنے اصحاب کے ساتھ ۲۵/ذی قعدہ ۱۰ھء/۲۰/مارچ ۶۳۲ ء کو مدینہ سے روانہ ہوئے ۔جوں جوں آپ آگے بڑھتے جاتے لوگوں کا قافلہ آپ صلى الله عليه وسلم کے ساتھ ہوتا جاتاجو خوشی ومسرت سے سرشار تھے۔بالآخر یہ قافلہ ۴/ذی الحجہ ۱۰ھ /۲۰/مارچ ۶۳۲ء میں اتوار کے دن مکہ پہنچا۔وہیں سب لوگ قیام پذیر ہوئے ۔یہاں تک کہ ۸/ ذی الحجہ کو نبی اکرم صلى الله عليه وسلم منیٰ کے لیے روانہ ہوئے ،وہاں سے ۹/ذی الحجہ کو نکلے تو نمرہ سے گزر کر عرفات پہنچے اور یہاں وقوف فرمایا۔یہیں آپ صلى الله عليه وسلم نے اپنا تاریخ ساز خطبہ دیا ۔ابتدائے حج اور خطبہ دینے کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے اصح السیر کے مصنف لکھتے ہیں:
”مروہ سے اتر کر حضور صلى الله عليه وسلم نے مکہ سے باہر قیام فرمایااور تمام اصحاب یوم الترویہ یعنی ۸/ ذی الحجہ تک آپ صلى الله عليه وسلم کے ساتھ وہیں رہے۔اتوار ،پیر،منگل،بدھ یہ چارروز آپ صلى الله عليه وسلم نے وہاں قیام فرمایا اور اس درمیان میں برابر نماز قصر اداکرتے رہے۔ جمعرات کے روز یعنی ۸/ ذی الحجہ کو صبح کے وقت آفتاب بلند ہونے کے بعد تمام اصحاب کے ساتھ منیٰ کی طرف روانہ ہوئے ۔جو لوگ حلال ہوگئے تھے انہوں نے یہیں سے ۸/ ذی الحجہ کا احرام باندھا۔ احرام کے لیے یہ لوگ مسجد نہ گئے،بلکہ مکہ سے باہر ہی احرام باندھا۔منیٰ میں پہنچ کر آپ صلى الله عليه وسلم نے ظہر اور عصر کی نماز پڑھی اور رات کو وہیں رہے۔یہ جمعہ کی رات تھی۔پھر جمعہ کے روز جب آفتاب طلوع ہوا تو ضب کے راستہ سے عرفہ کی جانب روانہ ہوئے۔راستہ میں بعض اصحاب تلبیہ کہتے تھے،بعض تکبیر۔آپ صلى الله عليه وسلم سنتے تھے مگر کسی کو منع نہ کرتے تھے۔عرفات کے پورب کی جانب اس وقت ایک قریہ تھا،جس کا نام نمرہ تھا،آپ صلى الله عليه وسلم کے حکم سے وہیں آپ صلى الله عليه وسلم کا قبہ نصب ہواتھا،اس میں آپ اترے ۔آفتاب ڈھلنے کے بعد آپ کا ناقہ قصویٰ آیا،اس پر آپ سوار ہوئے اور وہاں سے عرفہ کے بطن وادی میں آئے اور وہاں اونٹ ہی پر وہ خطبہ عظیمہ ارشاد فرمایاجو اسلام کی سب سے بڑی دولت ہے۔“۴
خطبہ حجة الوداع کا تذکرہ ہوتے ہی عام طور سے ذہن میں اس کا وہ حصہ گردش کرنے لگتا ہے،جس میں چند بنیادی باتوں کے ساتھ انسانیت کا احترام اور اس کے حقوق کی حفاظت کا ذکر ملتا ہے۔یہی حصہ بیشتر کتب متون اور سیر میں بھی ملتا ہے۔حالاں کہ یہ خطبہ اس سے بھی زیادہ طویل ہے جس میں اساسیات اسلام،اجتماعات ،دینیات، عبادات اور معاملات کی تعلیم مختصر اور جامع انداز میں دی گئی ہے۔اس موقع پرآپ صلى الله عليه وسلم نے تین خطبے ارشاد فرمائے تھے۔پہلا ۹/ذی الحجہ کوعرفات کے میدان میں،دوسرا۱۰/ذی الحجہ کو منیٰ میں اور تیسرا بھی۱۱/یا۱۲/ذی الحجہ کو منیٰ میں دیا۔لیکن ان تینوں میں عرفات کا خطبہ زیادہ اہم ہے۔تعجب کی بات ہے یہ خطبات یکجا کسی کتاب میں موجود نہیں ہیں۔البتہ اس کے اجزاء مختلف کتابوں میں منتشر ضرور ہیں ۔بعد کے زمانہ میں سیرت رسول پرجو کام ہوا ہے اس میں بھی پورے خطبات نہیں ملتے۔کچھ سالوں قبل پاکستان سے ماہ نامہ نقوش کا خصوصی شمارہ ”رسول نمبر“ کے نام سے شائع ہوا تھاجو ۱۳ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے، اسکی تکمیل کیلئے علمی دنیا کی اہم شخصیات کی مدد لی گئی تھی ،اس میں بھی پورا خطبہ نہیں ملتا۔البتہ مولانا غلام رسول مہر مرحوم نے کافی حد تک اسکی تلافی کرنے کی کوشش کی ہے تاہم وہ بھی نامکمل ہے۔اس کمی کا احساس راقم کوپہلے سے تھا۔کیوں کہ جب میں نے ۱۹۹۹/ میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے جلسہ”سیرت النبی“کے مقابلہ مضمون نویسی بہ عنوان”انسانی حقوق کا تحفظ خطبہ حجة الوداع کی روشنی“میں حصہ لیا ،تو اس کی تیاری میں بہت سی کتابوں کامطالعہ کیا ،مگر کہیں مکمل خطبہ نہیں ملا۔سیرت نبوی پر ابن سعد کی طبقات بڑی اہم مانی جاتی ہے اس میں بھی پورے خطبہ کا ذکر نہیں ہے۔اس وقت سے ہی اس کی تلاش جاری تھی۔چند دنوں قبل ایک کتاب ”حجة الوداع“پر نظر پڑی جو بیت الحکمت لاہور سے ۲۰۰۵/ سے شائع ہوئی ہے، تو بڑی خوشی ہوئی کہ اس کمی کا ازالہ ہوگیا۔کتاب کے مصنف پروفیسر ڈاکٹر نثار احمد صاحب سابق رئیس کلیہ فنون وصدر شعبہ اسلامی تاریخ جامعہ کراچی ہیں۔انہوں نے پورے خطبہ کو مختلف ماخذ کے مدد سے مع حوالہ دفعات کی شکل میں جمع کردیا ہے۔اس سے خطبہ کی افادیت بڑھ جاتی ہے اور علم و تحقیق کی دنیا میں ایک نئی چیز کا اضافہ ہوگیا ہے۔اس کے علاوہ اسی عنوان سے ایک کتابچہ بھی شائع ہوا ہے ، جس کے مرتب مولانا فضل الرحمن اعظمی ہیں جو افریقہ میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں ،اس میں بھی تشنگی موجود ہے، جس سے قاری مطمئن نہیں ہوپاتا۔ پروفیسر مذکو ر کی کتاب سے خطبے کا عربی متن پیش کرنے کے بجائے اس کا اردو ترجمہ یہاں نقل کیا جاتا ہے۔تاکہ اس کی اہمیت کا نہ صرف اندازہ لگایا جاسکے بلکہ اس سے پوری طرح استفادہ کیا جاسکے۔کیوں کہ بقول ایک سیرت نگار:
”ایک عظیم الشان بین الاقوامی دستاویز ہے ،جو نہ صرف اپنے دور میں آگے یا پیچھے کی کوئی مثال نہیں رکھتی،بلکہ آج بھی انسانیت کے پاس ایسا عظیم منشور حقوق موجود نہیں ہے ،جسے دینی تقدس کے ساتھ نافذ کرنے کے لیے ایک عالمی جماعت یا امت کام کرنے کے لیے تیار کی گئی۔اس کے بعض اجزاء جدید دور میں دوسروں کی دستاویزات میں بھی ملتے ہیں۔مگر ان کاغذی پھولوں میں عمل کی خوشبو کبھی پیدا نہ ہوسکی۔پھر حجة الوداع کے اساسی عقائد کے علاوہ بعض اہم اجزاء ایسے ہیں جن کی قدرو قیمت سے ہماری آج کی دنیا آشنا ہی نہیں۔“۵
اس خطبہ نے انسانی دنیا پر جو اثرات ڈالے ہیں اور اس سے قوموں وملکوں کی حالت زار میں جو تبدیلی واقع ہوئی ہے اس کا ذکر کرتے ہوئے اسی سیرت نگار نے یہ بھی تحریر کیا ہے:
”خطبہ حجة الوداع نہایت ہی خوبی سے اس حقیقت کو اجاگر کردیتا ہے کہ اب تک کے دوتین ہزار سالہ دور تاریخ میں حضور پیغمبرآخرالزماں صلى الله عليه وسلم وہ پہلی مبارک شخصیت ہیں جو ساری انسانیت کے لیے وسیع اور جامع پیغام لے کر آئے اور اس پیغام کو ایک تحریک کی شکل میں جاری کیا ،اس پر مبنی ریاست قائم کی اور اسے دنیا کی تمام اقوام تک پہنچانے کے لیے شہدا ء علی الناس کی ایک جماعت قائم کردی۔“ ۶
اسوہ حسنہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اسوہ حسنہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم Reviewed by Unknown on 4:34 AM Rating: 5

Ad Home

ads 728x90 B
Powered by Blogger.